مالی سال 2021-2020 کے لیے پاکستان کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جس کا حجم سات ہزار ارب سے زائد رکھا گیا ہے۔
بجٹ میں آئندہ مالی سال معاشی ترقی کی شرح 2.1 فی صد مقرر کی گئی ہے جب کہ جاری اخراجات کا تخمینہ چھ ہزار 345 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
رواں سال یہ خسارے کا بجٹ ہے جس میں وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے اور اخراجات 7137 ارب روپے ہیں۔ اس طرح بجٹ خسارہ 3437 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 7 فی صد بنتا ہے۔
جمعے کو قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر نے کہا کہ ریٹاٹرڈ ملازمین کی پینشن کی مد میں بجٹ میں 470 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو معاشی بحران ورثے میں ملا حکومت نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4700 ارب روپے مقرر کیا تھا۔ آئندہ مالی سال کے دوران کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
بجٹ تقریر میں حماد اظہر نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں آمدن کا مجموعی تخمینہ 63 کھرب 14 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ محاصل سے آمدن کا تخمینہ 36 کھرب 99 ارب 50 کروڑ روپے ہے۔ بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 70 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
حماد اظہر نے بتایا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فی صد کمی ہوئی۔ حکومت نے تجارتی خسارے میں 31 فی صد کمی کی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے چھ ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی ادائیگی کی۔ 10 لاکھ پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک ملازمت کے مواقع پیدا ہوئے۔ نو ماہ میں ترسیلات زر 17 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
دفاع کے لیے 1290 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ میں دفاعی اخراجات کی مد میں 1290 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کا حجم گزشتہ سال کی نسب 11 فی صد زیادہ بتایا گیا ہے۔
بجٹ تقریر کے دوران وفاقی وزیر حماد اظہر نے پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس نے حکومت کی کفایت شعاری مہم میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔
افغانستان کی بحالی کے لیے دو ارب
پاکستان کے وفاقی بجٹ میں افغانستان میں تعمیر و ترقی کے لیے دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یہ رقم 19 سال سے جنگ سے تباہ حال افغانستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی پر خرچ کی جائے گی۔
صحت کے لیے 25 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ میں کرونا وبا کے پیشِ نظر صحت کے بجٹ میں 130 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے صحت کے شعبے میں 25 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاق کے زیرِ انتظام لاہور اور کراچی کے اسپتالوں کے لیے 13 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تعلیم کے لیے 83 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے 83 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال اسی مد میں 77 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
ای سکولز، مدارس کے نظام میں اصلاحات کے لیے پانچ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ قرضوں کی مد میں حکومت نے گزشتہ دو سالوں کے دوران پانچ ہزار ارب روپے سود ادا کیا۔ یہ قرضے گزشتہ حکومتوں کی جانب سے لیے گئے تھے۔
حماد اظہر کے بقول سود کی ادائیگیوں کے لیے آئندہ مالی سال دو ہزار 946 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ میں خریداری پر قومی شناختی کارڈ کی شرط 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دی گئی ہے۔
بجٹ میں توانائی اور بجلی کے شعبے کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سماجی شعبے کے لیے 250 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
مواصلات کے منصوبوں کے لیے 37 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ آبی وسائل کے لیے 69 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجلی کا ترسیلی نظام بہتر بنانے کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے تین ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
پاکستان میں مقامی سطح پر موبائل فون بنانے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس ضمن میں ٹیکس میں بھی کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔
بجٹ تقریر میں حماد اظہر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق فنانشل ایکش ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی کئی سفارشات پر من و عن عمل کیا۔
بجٹ میں احساس پروگرام کی رقم 187 ارب سے بڑھا کر 208 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ نجکاری سے 100 ارب روپے حاصل کرنے کی تجویز ہے۔
'کرونا کے باعث معیشت کو نقصان ہوا'
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ترقی پذیر ملکوں کو نقصان ہوا۔ پاکستان بھی کرونا کے اثر سے محفوظ نہیں رہا۔ لہذٰا حکومت نے معیشت کی بحالی کے لیے جو کوششیں کی تھیں اُنہیں شدید دھچکا لگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مجموعی قومی پیداوار میں کرونا کی وجہ سے 3300 ارب روپے کی کمی ہوئی اور یہ شرح منفی 0.4 ہو گئی۔
حکومت کو نان ٹیکس ریونیو میں 102 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ حکومت نے کرونا کے تدارک کے لیے 1200 ارب روپے سے زائد کے پیکج کی منظوری دی۔ حکومت نے طبی شعبے کے لیے 75 ارب روپے کی منظوری دی۔
کسانوں کو سستی کھاد اور قرضوں کی معافی کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 200 ارب روپے روزانہ اجرت کمانے والوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ کرونا فنڈ کے لیے 100 ارب روپے رکھے گئے۔
بجٹ میں بیرونی وسائل سے 810 ارب آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بجٹ تقریر میں حماد اظہر نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم رواں مالی سال کے بجٹ کے مقابلے میں 11 فی صد کم ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ افراطِ زر کی شرح نو فی صد سے کم کر کے چھ فی صد تک لائی جائے گی۔
حماد اظہر نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔
حماد اظہر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے چھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضم ہونے والے اضلاع کے لیے 48 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے جبکہ دیگر کی مد میں 890 ارب روپے دینے کی تجویز ہے۔
نئے بجٹ میں نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30 ارب روپے، سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آسان کاروبار کے لیے 9 فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ٹیکس دینے والے شادی ہالز اور بچوں کی اسکول یا تعلیمی فیسوں پر والدین پر عائد ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔
ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے والدین کے لیے اسکولوں کی فیس پر ٹیکس کی شرط ختم کردی گئی جب کہ نادہندگان کے لیے اسکول فیس پر ٹیکس کی شرط کو برقرار رکھا گیا ہے۔
دو لاکھ روپے تک سالانہ فیس وصول کرنے والے اسکولوں پر عائد ٹیکس میں 100 فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے۔
آٹو رکشہ، موٹرسائیکل رکشہ،200 سی سی موٹرسائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔
صنعت کاروں کے لیے خام مال کی درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح ساڑھے 5 فی صد سے ایک فی صد کرنے کی تجویز ہے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ غذائی تحفظ کے لیے 12 ارب روپے رکھے گئے۔
حماد اظہر کی تقریر کے دوران قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ اپوزیشن اراکین نے اپنی نشستوں پر احتجاجی بینرز رکھ دیے اور بجٹ تقریر کے دوران مسلسل نعرہ بازی جاری رہی۔
'یہ بجٹ نہیں تباہی کا نسخہ ہے'
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام دشمن قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں اُن کا کہنا ہے کہ بجٹ کے نتیجے میں مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنی نالائقی پہلے مسلم لیگ (ن) اور اب کرونا کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک کی رہی سہی معاشی سانسیں بھی رک جائیں گی، یہ بجٹ نہیں تباہی کا نسخہ ہے۔
پیپلزپارٹی کی رہنما شیریں رحمان کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ صرف اکاؤنٹنگ کی ایک مشق لگتی ہے۔ ملک کو نہ صرف کرونا بلکہ ٹڈی دل کے حملوں کا بھی سامنا ہے۔ لیکن حکومت نے بجٹ میں ان سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی۔