پاکستانی فلمی صنعت تاحال جمود کا شکار

Adult female walruses on ice floe with young in waters of the Eastern Chukchi Sea, Alaska, face the threat of melting sea ice. (S.A. Sonsthagen/USGS)

ناصر ادیب نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر اب بھی سنجیدہ لوگ اس صنعت کی طرف رخ کریں اور اس ڈوبتی ناؤ کو سنبھالا دیں تو اس صنعت کے حالات ایک بار پھر بدل سکتے ہیں۔”جب سیلاب کا ریلہ آتا ہے تو پانی سوکھنے میں وقت تو لگتا ہے“۔

پاکستان کی فلمی صنعت پر گذشتہ کئی برسوں سے خزاں کا موسم ٹھہرا ہواہے اور کوئی ایک آدھ کونپل پھوٹتی بھی ہے تو وہ ’نا موافق آب وہوا‘ کے سبب شباب تک نہیں پہنچ پاتی۔

70اور 80کی دہائی پاکستانی فلمی صنعت کا ایک سنہرا دورتھا جب سالانہ سینکڑوں فلمیں بنا کرتی تھیں۔ ملک بھر میں سینما گھروں کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد تھی۔ کہانی نویس، پروڈیوسر،ہدایتکار،اداکار،تکنیک کار، موسیقار اور گلوکار الغرض فلمی صنعت سے وابستہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا شخص مصروف نظر آتا تھا۔

ناصر ادیب کا شمار بھی اس دور کے مصروف اور کامیاب ترین فلم نگاروں میں ہوتا ہے تاہم ان دنوں وہ بھی فرصتوں کے مارے نظرآتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کے دوران ناصر ادیب نے عہد رفتہ کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ”وہ کھڑکی توڑ ہفتے ختم ہوگئے، وہ سینماؤں کا رش ختم ہوگیا، لوگوں کا ہم سے فلم کے پہلے شو کا ٹکٹ مانگنے کا چارم ختم ہوگیا، ہمارا انتظار کرنے والے ختم ہوگئے اور فلموں کا انتظار کرنے والے بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ یہ پاکستان کی فلمی صنعت کا وہ عروج کا دورتھا جو آج ہمیں خواب لگتا ہے“۔

ناصر ادیب بتاتے ہیں کہ 1980ء میں ان کے پاس بحیثیت مصنف 54فلمیں تھیں۔ ”صبح آٹھ بجے سے اگلی صبح چار بجے تک تواتر سے کام جاری رہتا، پروڈیوسر وقت مانگتے تھے اور میرے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔ کوئی ایک پروڈیوسر مجھے گھر سے لینے آجاتا ہے میں اس کے ساتھ چلوں اور اس کے لیے کام کروں مگر جب ہم اسٹوڈیو پہنچتے تو وہاں کوئی دوسرا ڈائریکٹر مجھے کھینچ لیتا کہ پہلے میرا کام کرو اور بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ جو پروڈیوسر مجھے گھر سے لے کر آتا تھا اپنے کام کے لیے اس کا دن بھی میری مصروفیت کی نذر ہوجاتا۔“

ناصر ادیب

اُن ہی سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ناصر ادیب کہتے ہیں کہ پھر مجھے مختلف پروڈیوسر کبھی کراچی لے جاتے تو کبھی مری تاکہ میں ان کا کام کرسکوں لیکن اس دوران بھی جن دیگر ہدایتکاروں کے لیے کہانیاں لکھی ہوتی تھیں ان کی فون کالوں کا تانتا بندھا رہتا۔

اس دور میں فلمی صنعت کی مصروفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے ناصر ادیب کہتے ہیں کہ لاہور کے باری اسٹوڈیو میں دس فلور اور ایک گاؤں ہوا کرتا تھا اور ان سب میں شوٹنگزچل رہی ہوتی تھیں۔حتٰی کہ انتظامیہ کے دفتر کے سامنے لان میں بھی شوٹنگز کے لیے لوگوں کواپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ”اب یقین نہیں آتا کہ ہم نے وہ دور بھی دیکھا تھا ، یہ ٹھیک ہے کہ عروج اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ زوال انسان کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے آتا ہے“۔

مولا جٹ، چن وریام،شیر خان ،قیمت،یہ آدم،چڑھدا سورج،انسانیت کے دشمن،میڈم رانی، کالے چور، جنگل کا قانون اور بے شمار شہرہ آفاق فلموں کے مصنف ناصر ادیب نے کہا ”ایسی عیدیں بھی دیکھی ہیں کہ جب عید کے روز تیار ہوکر اپنے کمرے سے ڈرائنگ روم میں آیا کرتا تھا تو مٹھائیوں کے سجے ہوئے ٹوکرے اور دیگر قیمتی تحائف وہاں رکھے ہوتے تھے اور ملنے جلنے والوں کا رش ہوا کرتا تھا اور پھر یہ عید بھی دیکھی کہ کمرے سے نکل کر بیٹھک میں پہنچے تو وہاں سوائے اپنی بیگم اور ملازمہ کے کوئی نہیں تھا، وہ مٹھائیوں کے تحفوں کے انبار سب گئے وقت کے ساتھ چلے گئے“۔

گفتگوکے اختتام پر ناصر ادیب نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر اب بھی سنجیدہ لوگ اس صنعت کی طرف رخ کریں اور اس ڈوبتی ناؤ کو سنبھالا دیں تو اس صنعت کے حالات ایک بار پھر بدل سکتے ہیں۔”جب سیلاب کا ریلہ آتا ہے تو پانی سوکھنے میں وقت تو لگتا ہے“۔