امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز نے حال ہی ایک اداریے میں کہا ہے کہ ہزاروں برس کی تاریخ رکھنے والی دریائے سندھ کی وادی کے آبپاشی نظام میں سرمایہ کاری کی شدید کمی ہے۔
اخبار کا کہنا تھا کہ حالیہ تاریخ میں حکومتوں نے آبپاشی کے نظام پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ امریکہ میں 1927 میں دریائے مسی سیپی میں آنے والے سیلاب کے ایک ہی برس بعد 1928 کا فلڈ کنٹرول ایکٹ متعارف کروایا گیا۔ یہ اس وقت کا امریکی حکومت کا تاریخ کا سب سے بڑا سرکاری پراجیکٹ تھا۔ اخبار نے رپورٹ کیا ہےکہ چین کے سرکاری بجٹ کا ایک بڑا حصہ سیلاب کے انتظام میں خرچ ہوتا ہے۔ چین نے 2017 میں اسپر 144 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔
کاروبار اور سرمایہ کاری پر رپورٹ کرنے والے موقر امریکی ادارے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے بیس سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں بڑے سرکاری پراجیکٹس میں سرمایہ کاری میں پاکستان صرف مصر سے آگے ہے۔
ملک بڑھتی آبادی کے لیے ضروری انفراسٹرکچر تعمیر کرنے سے محروم ہے اور ایسے میں کسی بھی بڑی قدرتی تباہی سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
SEE ALSO: سیلاب کی تباہ کاریاں، حاملہ اور ماہواری سے دوچار خواتین کے مسائل میں کئی گنا اضافہاخبار کے مطابق تربیلا اور منگلا کے پانی کے ذخیرے کوہ ہمالیہ سے آنے والی مٹی کی وجہ سے پانی جمع کرنے کی صلاحیت کھوتے جا رہے ہیں۔ صرف تربیلا کی جھیل میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت محض 57 فیصد رہ گئی ہے۔
جب کہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے پہلے سے موجود نہری نظام اور بڑے بیراجوں کو بھی مرمت کی شدید ضرورت ہے۔
اس تجزئے کے مصنف اور بلوم برگ کے لیے لکھنے والے ڈیوڈ فکلنگ کے مطابق اس کی وجہ آپباشی کے نظام کی مرمت اور تعمیر میں سرمایہ کاری کی کمی، کرپشن، اور چاروں صوبوں میں پانی اور سرمایےکی تقسیم پر اختلافات ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے پانی اور ماحولیات کے ایک کارکن ذوالفقار ہالی پوٹو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بارش زمین کے لیے بہت اچھی ہے، زمین کو جتنا بھی پانی ملے وہ کم ہے، لیکن انتظام کی کمی کی وجہ سے لوگ اسے زحمت کہنا شروع کر دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت سیٹلائیٹ کے ذریعے سندھ میں سیلاب کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کہیں بھی پانی نے نظام کو متاثر نہیں کیا۔ ان کے مطابق پانی نے صرف اپنے راستے چھڑائے ہیں۔ جہاں جہاں تجاوزات تھیں، جہاں قبضے ہیں۔ اور یہ ہر سطح پر کئے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ہمیں ترقیاتی کام کرنے چاہیں لیکن انہیں ماحول سے مطابقت میں لائے بغیر قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی تباہی سے نہیں بچا جا سکتا۔ انہوں نے دریائے میکانگ کی مثال دی جو کمبوڈیا سے تھائی لینڈ تک سات ممالک سے گزرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ملکوں میں سارا سال بارش ہوتی ہے، لیکن انہوں نے مقامی طور پر ایسے نظام بنائے ہیں کہ پانی کہاں سے گزرے گا، اور سیلاب کی صورت میں ریسکیو کا نظام کیا ہوگا۔
ہالی پوٹو کا کہنا تھا کہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں پانی کا زیادہ تر دارومدار گلیشئیرز کے پگھلنے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بہت زیادہ پانی ہے، ہمیں اس کے بہتر انتظام کی ضرورت ہے۔ہالی پوٹو نے کہا کہ دنیا اب ڈیموں کی بجائے چھوٹے چھوٹے سٹرکچر، رن آف دی ریور پراجیکٹس کی جانب جا رہی ہے۔ ہمارے پاس بہت زمین ہے اور ہم تھوڑا سا کام کر کے بہت سا پانی بچا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا زراعت، فشریز، واٹرمنیجمنٹ، ماحولیات اور لائیو سٹاک جیسے ایک دوسرے پر دارومدار کرنے والے شعبوں کی مجموعی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اور ان معاملات کو جنگی بنیادوں پ مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کا موجودہ ترقی کا ماڈل عوام کی بجائے سلامتی پر مرکوز ہے۔ ’’جب تک آپ سیکیورٹی سینٹرک رہیں گے تب تک آپ چاہے پوری دنیا سے پیسے لے آئیں، آپ مقامی طور پر طویل بنیادوں پر مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔‘‘