مہنگائی !!تیسری دنیا کاہی نہیں پاکستان کا بھی سب سے سنگین اور گھمبیر مسئلہ ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس مسئلے سے کئی اور مسئلے جڑے ہیں مثلاً بے روزگاری، غربت اور بھوک۔ پاکستان میں مہنگائی نے وہ ظلم ڈھائے ہیں کہ اس کے اثرات نسل در نسل دیکھے جائیں گے ۔
ستر سالہ خوشی محمد بے روزگاری اور اپنی غریبی دور کرنے کے حسین خواب لے کر 24 سال پہلے پنجاب سے کراچی آیا تھا۔ اسے آسرا تھا کہ کراچی بڑا شہر ہے کوئی نہ کوئی کاروبار پھل پھول جائے گا نہیں تو چھوٹی موٹی نوکری کرکے اپنا پیٹ پال لے گا۔ آج چوبیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا پیٹ تو پل رہا ہے مگر تنگ دستی ہے کہ بے علاج روگ کی طرح پیچھا ہی نہیں چھوڑتی اور ہر شام اسے کسی نہ کسی مسجد میں نماز کے بعد دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے لئے کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔
۔۔ اور آج تو حدہوگئی۔ آج وہ اپنے چار چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بھی ساتھ لے آیا جو ہر آتے جاتے نمازی کو مدد کے لئے پکار رہے تھے۔ وی او اے کے اس نمائندے کی ذرا سی ہمدری سے وہ پھٹ پڑا۔ کہنے لگا: گوجر خان کا رہنے والا ہوں، مئی 1986ء میں کراچی آیا تھا ، گاوٴں میں کمانے کے مواقع کچھ زیادہ نہ تھے اس لئے شہرآگیا ۔ اپنا کام کرنے کے لئے کچھ روپیہ ساتھ لایا تھا مگر قسمت نے یاوری نہ کی ۔۔۔ نہ کاروبار جما نہ نوکری ملی۔ چھوٹی موٹی بہت سی نوکریاں کیں، مگر مہنگائی ہمیشہ میری آمدنی سے دوگنا ہی رہی اور آج نوبت یہ ہے کہ میں تو غریب تھا ہی میرے بچے بھی سدا کے غریب ہوگئے ، چار بچوں کا ساتھ، کرائے کا مکان، کھانا پینا۔۔دس ہزار روپے سے بھی زیادہ کے خرچے ہیں مگر تنخواہ چار ہزار ہے ۔۔ اب بھیک نہ مانگو تو کیا کروں؟'
یکم نومبر یعنی پرسوں کی بات ہے ۔ پرسوں کا اخبار پاکستانیوں کے لئے ایک اور قیامت خیز خبر لے کر آیا۔ حکومت نے پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا۔ مبصرین کے مطابق یہ صرف مہنگائی میں اضافہ نہیں بلکہ غربت اور گداگری میں اضافے کا دوسرا نام ہے۔ دوہزار پانچ کا زلزلہ اور حالیہ سیلاب ہی غربت میں بے پناہ اضافے کا باعث نہیں رہا بلکہ روز روز کی مہنگائی اور آئے دن کے منی بجٹ بھی غربت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
پچھلے سال تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح پانچ اعشاریہ پانچ فی صد اور بے روزگارافراد کی تعداد 29 لاکھ تھی۔ یہاں ہر چوتھاشخص غربت کی لگیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ دوہزار نو کے مطابق ملک کی 22.6فیصد آبادی یومیہ سوا ڈالر سے کم آمدنی پر زندگی بسر کررہی ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیاء میں غربت کے حوالے سے پانچویں اور دنیا میں ایک سو ایک ویں نمبر پر ہے۔
یکم نومبر کو ہونے والی مہنگائی کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ملک بھر میں مہنگائی کا نیا طوفان آ گیا ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ جن گھروں میں 1990ء کے عشرے میں مہینے میں کم از کم چار مرتبہ گوشت پکا کرتا تھا اب وہاں چار مہینے میں ایک آدھ مرتبہ گوشت پکتا ہے۔ اس وقت کراچی میں بڑے کا گوشت 320روپے فی کلو ہے۔کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے محمد ماجد کہتے ہیں: "گوشت کا استعمال کم سے کم تر کردیا ہے، پہلے بھنا ہوا گوشت کھاتے تھے تو زیادہ گوشت لانا پڑتا تھا اب زیادہ گوشت لا نہیں سکتے اس لئے مہنگائی کی دہائی دیتے ہوئے زیادہ تر پتلے شوربے والے سالن پکواتے ہیں تاکہ گوشت کم استعمال ہو"
گھر گھر جاکر جھاڑو پونچھا کرنے والی زلیخا کا کہنا ہے کہ اسے پچھلی عید پر گوشت کھانے کو ملا تھا وہ بھی قربانی کے جانور کا۔ اب سال پورا ہونے کو ہے۔ ہمیں تو ایک گھر میں کام کرنے کے مہینے میں تین چار سور وپے ہی ملتے ہیں، ان میں گوشت ، مرغی ، مچھلی اور انڈے کہاں آسکتے ہیں۔ میرا والد کئی ماہ بیمار رہنے کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا، ڈاکٹروں نے اسے یخنی بتائی تھی ہم یخنی کہاں سے لاتے اور کتنی بار لاتے۔۔۔سو یخنی کے انتظار انتظار میں ہی وہ اس دنیا سے چل بسے"
یہی حال دودھ کا ہے۔ دودھ 60 روپے کلو بک رہا ہے۔ جن گھروں میں زیادہ دودھ استعمال ہوتا تھا وہاں کے دودھ میں اب پانی کی مقدار زیادہ ہوگئی ہے۔ لوگ بچوں کو دودھ کے نام پر پانی پلانے پر مجبور ہیں۔
ایک متوسط گھرانہ بھی 80 روپے درجن انڈے خریدتے ہوئے دس بار سوچتا ہے۔ مچھلی، مرغی کی بات چھوڑ ہی دیجئے، یہ متوسط گھرانے کی پہنچ سے بہت دور کی بات ہے۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں جہاں مہینے کا اکھٹا سامان لانے کا رواج دن بہ دن کم ہونے لگا ہے۔
اکھٹا سامان خریدنے کے لئے مٹھی بھر رقم خرچ کرتے ہوئے خوف محسوس کیا جاتا ہے کہ اگر ساری رقم شروع مہینے میں ہی خرچ ہوگئی تو باقی مہینہ کیسے گزرے گا۔ اس لئے ہر شام اگلے دن کا سامان لانا معمول ہوتاجارہا ہے۔ ایک سفید پوش گھرانے کے سربراہ کا کہنا ہے: ایک کلو گھی یا تیل، پانچ کلو چاول یا دو کلو چنے لانا مشکل ترین مرحلہ ہے اس لئے میں ہر شام کبھی بیس روپے کا گھی اور کبھی بیس روپے کا تیل لا کر کام چلا رہا ہوں۔ چاول سو روپے کلو سے کم نہیں اس لئے کبھی پاوٴ بھر اور کبھی آدھا کلو چاول لاتا ہوں۔جب سے چینی اسی پچاسی روپے ہوئی ہے، اسے خریدتے ہوئے کتراتا ہوں اور کبھی مہمان وغیرہ آئے ہوئے ہوں تو بھی آدھا کلو سے بھی کم چینی خریدتا ہوں"
ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی خطرناک شرح سے بڑھی ہے۔ غریب شہری دال اورسبزی کھانے کو ترس گئے۔ ٹماٹر جیسی معمولی چیز90 روپے سے ایک سو روپے کلو تک فروخت ہورہی ہے اب بقر عید آنے والی ہے یہی حال رہا تو ٹماٹر 2یا تین سو روپے کلو ہوجائیں گے۔ غریب شہری دالوں پر گزارا کرلیتے تھے لیکن دالیں انکی دسترس سے نکل گئی ہیں۔کوئی بھی دال ڈیڑھ سو روپے سے کم نہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پچھلے تین ماہ میں آٹا چودہ فیصد، دال چنا ساڑھے بارہ فیصد، دال مونگ اکیس فیصد اور چینی سترہ فیصد مہنگی ہو چکی ہیں۔ نوے دن میں دودھ دس فیصد، گھی نو فیصد، سرخ مرچ پاوٴڈر اکیس فیصد اور نمک چھ فیصد مزید مہنگا ہو گیا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق گذشتہ ایک سال میں مہنگائی کی شرح بائیس فیصد بڑھ گئی۔
وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے میں آٹا، گھی، چینی، چاول، آلو، پیاز اور ٹماٹر سمیت 20اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔ اکتوبر کے آخری ہفتے کے دوران جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں چھوٹا بڑا گوشت ، برائیلر ، سرخ مرچ ، لہسن ، گندم ، مسور کی دال ، سرسوں کا تیل ، چاول اور ایل پی جی بھی شامل ہے۔