پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان مذاکرات کے نئے دور سے قبل سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دو ارب ڈالرز دینے کے اعلان کو معاشی مشکلات سے دوچار ملک کے لیے اچھی خبر قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے یہ اشارہ ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب پاکستانی وفد عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے موسم بہار کے اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن جانے کی تیاری کر رہا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی فنڈ کی سربراہ سمیت اہم عہدے داروں سے ملاقاتیں متوقع ہیں جہاں پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پر زور دے گا۔
ماہرین کے مطابق اگر ان "مثبت اشاروں" کو بھی حقیقت تسلیم کرلیا جائے تو بھی پاکستان کو رواں مالی سال میں ادائیگیاں مکمل کرنے کے لیے تقریباً ایک ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے جس کے لیے پاکستانی وزارتِ خزانہ اب متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ اسے وزیرِ خزانہ کے دورہ امریکہ سے قبل مکمل کیا جائے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے بدھ کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ قرض کی ادائیگی کے لیے بیرونی فنڈنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے مطالبے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہ دیکھا گیا تھا کہ بیرونی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو زبانی طور پر ہی آگاہ کردینا ہی کافی ہوتا تھا اور اس پر ہی اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہوجاتا تھا۔
اُن کے بقول فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے معائدے کی منظوری سے قبل ہی یہ ممالک آئی ایم ایف کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کردیتے تھے۔ لیکن فریقین (پاکستان اور آئی ایم ایف) کے درمیان اس وقت اعتماد کے فقدان کی وجہ سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ سے قبل کئی شرائط رکھی گئی تھیں۔
عائشہ غوث پاشا نے مزید بتایا کہ چین، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک پاکستان کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں اور اس میں قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ چین اس سے قبل بھی پاکستان کے ذمے قرضہ رول اوور کر چکا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ماہ کے آخر میں بتایا تھا کہ چین کی جانب سے پاکستان کا دو ارب ڈالر کا قرض رول اوور ہوچکا ہے جس سے پاکستانی غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کسی حد تک بہتری بھی دیکھی گئی تھی۔
اُدھر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کے دوست ممالک گزشتہ قرضہ رول اوور کرنے کے ساتھ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید فنڈز دینے پر راضی ہو جائیں تو آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ جلد ممکن نظر آتا ہے۔
معاشی معاملات سے باخبر صحافی علی خضر کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت نے پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کے لیے اشارے تو ضرور دیے ہیں لیکن وہ ابھی اس پر عمل درآمد کے لیے دیگر ممالک کی جانب سے بھی اعلانات کا انتظار کر رہا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے اسے تقریباً دو ماہ کے بعد پاکستان کے لیے اچھی خبر قرار دیتے ہوئے اسے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ محض 4.2 بلین ڈالر کے غیر ملکی ذخائر کے ساتھ پاکستان کو اپنی فوری مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹھوس اقتصادی سفارت کاری کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشی حالت انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے گزشتہ آئی ایم ایف پروگرامز کی نسبت اس پروگرام میں پاکستان کا انحصار فنڈ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک پر بھی بڑھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان کو 30 جون تک کی ادائیگیوں کے لیے چھ ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے جن میں سے سعودی عرب کے دو ارب ڈالر اور ایک ارب ڈالر متحدہ عرب امارات سے آنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے جب کہ باقی فنڈز دیگر مالیاتی اداروں اور چین کی جانب سے آنے ہیں۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان بڑھ چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام سے کیا جانے والا بارہا انحراف ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق بجٹ تیار نہیں کیا گیا، روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بڑھا کر رکھا گیا، پیٹرول کی قیمت پر سبسڈی دی گئی اور گیس کی قیمت بھی نہیں بڑھائی گئی بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
اُن کے بقول اب ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں اس اعتماد کے فقدان کو ختم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی
دوسری جانب اسٹاک مارکیٹ میں بھی سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے اشاروں پر مثبت رجحان دیکھا گیا۔ جمعرات کو ہنڈرڈ انڈیکس میں 633 پوائنٹس کا بڑا اضافہ دیکھا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈالر کے ان فلوز آنے والے وقت میں بڑھتے ہیں تو اس کا مثبت اثر مارکیٹ میں نظر آئے گا جب کہ اسی طرح جمعرات کو پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدرے مضبوط دکھائی دیا اور اس کی قیمت میں ایک روز میں تقریباً 1.20 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
تاہم اس وقت ڈالر کی قلت کے باعث ایل سیز کھلنے میں رکاوٹیں بدستور موجود ہیں، مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور مہنگائی تاریخی 35 فی صد سے بڑھ چکی ہے جبکہ آنے والے مہینوں میں اس مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
مرکزی بینک نے شرح سوُد میں مزید ایک فی صد اضافہ کردیا ہے جس سے معاشی پہیہ مزید سست ہونے کے ساتھ بے روزگاری اور پھر غربت میں مزید اضافے کی توقع کی جارہی ہے اور دوسری جانب پاکستان کی برآمدات میں بھی گزشتہ ماہ خاطر خواہ کمی دیکھی گئی ہے۔