ایسے میں جب پاکستان کو معاشی دباؤ کا سامنا ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالات میں بہتری کا تعلق صرف معاشی پالیسیوں سے نہیں ہے۔ بقول ان کے، اچھا طرز حکمرانی، جس میں شفافیت، جوابدہی، شراکت داری، اتفاق رائے، انصاف، قانون کی بلاتفریق عملداری اور حکومت کی اثرپذیری شامل ہے، ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ’’پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ نئے سرے سے اپنی ترجیحات کا تعین کرے اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنائے‘‘۔
گڈ گورننس کیا ہے؟
سماجی و سیاسی علوم کے ماہرین گڈ گورننس کو آٹھ بنیادی اجزا کا مجموعہ قرار دیتے ہیں: ایسی حکومت جو شرکت داری، اتفاق رائے، تحرک، جوابدہی، شفافیت، منصفانہ ہو اور قانون کی عملداری جیسے خواص پر کاربند ہو۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اچھی گورننس بدعنوانی کو کم کرتی ہے اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقات کی آواز کو فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ملک کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کو مد نظر رکھ کر اقدام کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عارف آزاد گورننس اور پالیسی امور کے ماہر ہیں اور سماجی ترقی کے شعبے میں خدمات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں ترقی بذریعہ اچھی حکمرانی کا بہت چرچا رہا ہے۔
ان کے الفاظ میں، ’’معاشی اور سماجی ترقی کا گڈ گورننس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جب تک اچھی پالیسیز نہیں ہوں گی، ادارہ جاتی ڈھانچہ نہیں ہوگا، رول آف لا نہیں ہو گا۔ سٹیٹ، سوسائیٹی اور حکومت کے درمیان باہم مربوط ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہو گا تو ظاہر ہے اس کا فرق معیشت پر پڑے گا‘‘۔
لندن میں مقیم تجزیہ کار شمع جونیجو، جو اداروں کی درجہ بندی اور عمل داری پر ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ’’میرے خیال میں اچھی گورننس کا براہ راست تعلق معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ۔ ہے۔ جب تک پالیسیز نہیں ہوں گی کہ معیشت کیسے چلانی ہے، اس کے لیے جو فیصلے لینے ہوتے ہیں، وہ اہم ہیں۔ اس بات پر گہرا انحصار ہے کہ حکومت کے سربراہ نے خطرات کا تجزیہ کس طرح کر رکھا ہے۔ اس کی ٹیم کیسی ہے۔ اور وہ فیصلوں پر کس طرح سے عملدرآمد ہوتا دیکھ رہا ہے‘‘۔
ان کے بقول، ’’گورننس میں ایک اہم مسئلہ طویل مدت پالیسیوں کا فقدان ہے۔ ہر حکومت تو کیا ہر وزیر کے تبدیل ہونے کے بعد تدبیر بدل جاتی ہے‘‘۔
کیا تحریک انصاف کی حکومت گڈ گورننس کے اصولوں پر کاربند ہے؟ احتساب کے جاری عمل کے پس منظر میں، شمع جونیجو کہتی ہیں کہ ان جواب نفی میں ہے۔
بقول ان کے، ’’احتساب کا جاری عمل حکومت سے غیر منسلک نہیں ہے۔ تاثر بن رہا ہے اور دیکھا بھی جا رہا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر’ وچ ہنٹنگ‘ ہو رہی ہے، یعنی مخالفین کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘‘۔
ان کی رائے میں ’’اس سے اداروں کی کارگردگی پر حرف آتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری غیر سرکاری تنظیم، ’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ‘ کے سربراہ اور حکومت کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ہیں۔ وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اچھی گورننس معاشی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے؛ اور اہداف کے حصول کے لیے، وہ اداروں کی استعداد کار بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں۔
’اکاونٹیبلٹی لیب‘ کے ڈائریکٹر، فیاض یاسین کہتے ہیں کہ حکومت گورننس پر واضح سمت نہیں رکھتی، اور یہ کہ ’’نئے سرے سے ترجیحات کے تعین کی ضرورت ہے‘‘۔
ان کے الفاظ میں، ’’سرکار کو سب سے پہلے تو فائر فائٹنگ کے مرحلے سے باہر نکلنا پڑے گا۔ ایڈہاک بنیادوں پر لیے جانے والے اقدامات گڈگورننس کی تمام تھیوریز کے برعکس جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو ہر پالیسی بیان پر اپنے اہداف بدلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ معیشت بنیادی مسئلہ ہے، اگر حکومت اس کو سنبھالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو عوام کا اعتماد حاصل کر سکتی ہے۔‘‘
پنجاب حکومت کے مشیر خزانہ، ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ’’اچھی گورننس کے ذریعے معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف کا حصول حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے‘‘۔
بقول ان کے، ’’جس طرح جعلی بنک اکاونٹس کے ذریعے پیسہ بنانے کی رپورٹیں میڈیا میں آ رہی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جب تک نظام بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں بنے گا، معیشت بحال نہیں ہو سکتی۔جو سرمایہ کاری آنی چاہیے ہے، نہیں آئے گی۔ اول درجے کے سرمایہ دار نہیں آئیں گے۔ سو بہت ضروری ہے کہ نظام بہتر ہو، جوابدہی کا عمل بہتر ہو۔ اس عمل میں غیرجانبداری بھی ہونی چاہیے اور گورننس کے سسٹمز میں آسانی بھی ہونی چاہیے‘‘۔
تجزیہ کاروں اور سماجی علوم کے ماہرین اچھی گورننس کو معاشی شرح نمو کے لیے اہم خیال کرتے ہیں۔ تاہم، ’ورلڈ اکنامک فورمز‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80 کی دہائی میں افریقی ممالک میں خاص طور پر ترقی بذریعہ گورننس پر توجہ مرکوز رہی۔ اگرچہ، معشیت اور گورننس کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، اس بارے میں بہت کم شواہد ہیں کہ گورننس سے متعلق حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں معیشت پر کوئی بڑا فرق پڑا ہو۔