پاکستان میں انٹرنیٹ اور صارفین کے ڈیجیٹل حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ریاستی ادارے انٹرنیٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والے صحافیوں اور سرگرم کارکنوں کو ہراساں کرنے کے لئے سائبر قوانین کا سہارا لے رہے ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر آزادی محدود ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔
اس رپورٹ میں عائد کیے گئے الزامات پر فی الحال حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
انٹرنیٹ پر اظہار رائے مشکل
انٹرنیٹ پر جمہوریت اور سماجی انصاف کے لئے کام کرنے والے ادارے ’بائیٹس فار آل‘ کی 81 صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر آزادی اظہار رائے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے آزادیِ اظہار رائے سلب کرنے میں ریاست کی جانب سے مبینہ طور پر کئی قسم کے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں اور 50 فیصد سے زائد صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ ریاستی اداروں کی جانب سے ان کی نگرانی سے انہیں نہ صرف ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ اس عمل سے صحافیوں کو معلومات فراہم کرنے والے ذرائع کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے 63 فیصد صحافی انجام کے ڈر سے ذاتی سینسر شپ (سیلف سینسرشپ) کا استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف، پشتون تحفظ موومنٹ، بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی کے حق میں اور پاکستان کے دوست ممالک جیسے چین اور سعودی عرب کے خلاف بیانیے کو آن لائن اور آف لائن سینسر کیا جاتا رہا۔ جب کہ عدلیہ کی مختلف اداروں میں مبینہ مداخلت اور فوج کے خلاف تنقید کو بھی سینسر کی نذر کیا گیا۔
رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کے لئے بھرپور اور مربوط کوشش کی گئی ہیں جس کا مقصد ان آوازوں کو دبانا تھا جو اپنا موقف روایتی طریقے سے پیش کرنے کے بجائے انٹرنیٹ کا سہارا استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی غلط ترجیحات اور نقطہ نظر کے باعث پاکستان میں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا میدان لوگوں کی زندگی میں خطرات بن رہا ہے۔ ایسی ڈریکونین پالیسیوں کے باعث وہ مواقع بھی ضائع کئے جا رہے ہیں جس سے شہریوں کے لئے سماجی اور معاشی میدان میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان بھارت کے بعد دوسرا ملک ہے جس نے سب سے زیادہ بار ملکی حدود میں انٹرنیٹ کو بند کیا۔ اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ موبائل فون سروس کو سیکورٹی کے نام پر بند کرنے کو غیر قانون قرار دے چکی ہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے جرائم کا ارتکاب
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 75 کالعدم جماعتوں میں سے 36 سوشل میڈیا پر فعال ہیں۔ 90 فیصد سائبر کرائمز کا تعلق خواتین اور چھوٹی بچیوں سے ہے۔ ان میں سے بھی 70 فیصد فحاشی پر مبنی مواد ہوتا ہے۔
جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا اہم ذریعہ
رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لینا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتیں اور ادارے عوامی سوچ پر اثر انداز ہونے کے لیے سوشل میڈیا ٹیمیں رکھتے ہیں جن کا کام ہی اپنے حق میں جھوٹی خبریں بنانا اور پھیلانا ہوتا ہے۔
گزشتہ سال عام انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھی جھوٹی پروفائلز بنائی جاتی رہیں جب کہ ایک جماعت کی جانب سے ووٹرز کا ڈیٹا مخالف جماعتوں کو لیک کرنے کے بھی الزامات عائد کئے گئے۔ درجنوں بار جھوٹے سیکورٹی الرٹس بھی منظر عام پر آتے رہے۔ رپورٹ میں ایسی درجنوں خبروں کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک واقعے کو تراش خراش کر غلط انداز میں پیش کیا جاتا رہا۔
ماہرین کی رائے کیا ہے؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محقق اور رپورٹ تیار کرنے میں معاون ہارون بلوچ نے ملک میں ڈیجیٹل حقوق سے متعلق صورت حال کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ ریاست سائبر قوانین کو ایسی آوازیں دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے جو اس کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ ٹوئٹر اور فیس بک انتظامیہ کو ریاستی اداروں کی جانب سے مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ ان مخصوص اکاؤنٹس کو معطل یا بند کریں جو ریاستی پالیسیوں کے خلاف کھل کر انٹرنیٹ پر اپنے موقف کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے 8 لاکھ سے زائد ویب سائٹس کو بند کیا جا چکا ہے جو ان کے مطابق صارفین کے لیے معلومات کے اظہار کا ذریعہ بن سکتی تھیں۔
ہارون بلوچ کے مطابق سائبر کرائم قوانین کے ذریعے مختلف توجہیات پیش کر کے ہتک عزت کے الزمات عائد کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد ان پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے رہے۔ اس طرح کے قوانین کو استعمال کر کے صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔
انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں واضح صنفی فرق موجود ہے
پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں 29 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور تھری جی اور فور جی سروس کے سبسکرابئرز کی تعداد ملک میں 6 کروڑ 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان انٹرنیٹ کے استعمال میں 86 ممالک کی فہرست میں 68 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں صنفی لحاظ سے بھی 266 فیصد کا بڑا فرق موجود ہے۔
پاکستان کی دیہی آبادی میں انٹرنیٹ کا استعمال اور پہنچ اب بھی محدود ہے۔ اسی لئے زیادہ تر انٹرنیٹ صارفین کا تعلق شہری علاقوں سے ہے جب کہ ان میں بھی زیادہ تر تعداد مردوں کی ہے۔ پاکستان میں 15 سے 65 سال کی عمر کے محض 17 فیصد مرد اور 14 فیصد خواتین انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں۔
پاکستانی آئی ٹی برآمدات کا حجم بڑھ رہا ہے
تاہم رپورٹ میں بعض مثبت اعشاریوں کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آئی ٹی سے منسلک برآمدات کا حجم ایک سال میں 1.7 ارب ڈالر بڑھا ہے جو اگلے سال تک 6 ارب امریکی ڈالر تک ہونے کی اُمید ہے۔ جب کہ 2025ء تک ملک کی ڈیجیٹل فنانشنل سروس میں 36 ارب ڈالر تک جانے کی استعداد ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ای کامرس کی مارکیٹ 99 ارب روپوں سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سالانہ 90 فیصد اضافہ ہو رہا ہے جب کہ مختلف ریاستی اداروں کی جانب سے طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے مختلف ایپس بنائی گئی ہیں۔ تاہم ابھی اس میں بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے فعال کارکن اور وائس آف ساوتھ ایشیا نامی ویب چینل کے سربراہ غلام مصطفیٰ بلیدی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر کریک ڈاون سے قبل یہی ہتھکنڈے اخبارات اور ٹیلی ویژن میڈیا کے ساتھ بھی اپنائے جاتے تھے۔ خطے میں ہائی برڈ وار فئیر کا بہانہ بنا کر پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء کو منظور کرایا گیا جس نے آزادی اظہار رائے پر بے پناہ قدغنیں عائد کر دی ہیں۔
انہوں نے اس قانون کو آئین پاکستان کی شق 19 سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ کے ذریعے ایک ایجنڈے کے طور پر انٹرنیٹ پر آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
انٹرنیٹ پر پابندیاں، حکومت کیا کہتی ہے؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس امر کی کئی بار تردید کی گئی ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر کوئی قدغن لگانا چاہتی ہے۔ تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کئی بار اس کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ ریاستی اداروں کے خلاف ایک مخصوص سوچ کے تحت کی جانے والی تنقید کو ہر صورت روکا جائے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات نفرت کا پرچار کرنے والوں کےخلاف ہیں اور ایسی کسی بھی تحریر کو برداشت نہیں کیا جائے گا جو ملکی مفادات یا سلامتی کے خلاف ہو۔ اس بناء پر حکومتی شکایت پر متعدد بار صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل، بند یا انہیں تنبیہی ای میلز موصول ہوئی ہیں۔