حکومتِ پاکستان نے 1200 ارب روپے دیگر ذرائع سے حاصل کرنے کے لیے سکوک بانڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ ان کے عوض دو ہوائی اڈے اور موٹروے کے کچھ سیکشنز بطور ضمانت رکھوانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
جن ایئر پورٹس کو بطور ضمانت رکھوایا گیا ہے ان میں لاہور کا علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور ملتان ایئر پورٹ شامل ہیں۔
اس اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں اور بعض ناقدین کی جانب سے حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ تاہم حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتیں بھی معیشت کی بہتری کے لیے سکوک بانڈ جاری کرتی رہی ہیں۔
سکوک بانڈز بنیادی طور پر ہوتے کیا ہیں اور پاکستان کے جو اثاثے مبینہ طور پر گروی رکھے جا رہے ہیں کیا ان کے ضبط ہونے کا بھی اندیشہ ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
سکوک بانڈز
سکوک ایک اسلامی مالیاتی سند ہے جو مغربی مالیات میں بانڈ کی طرح ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان یہ بانڈز جاری کرتا ہے جب کہ اسلامی مالیاتی ادارے اور سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والی کارپوریشنز یہ بانڈز خرید کر اس کے عوض حکومت کو رقم دیتی ہیں جو حکومت مالی خسارہ کم کرنے اور دیگر منصوبوں پر خرچ کرتی ہے۔
لیکن اس بانڈ کے اجرا سے قبل کاغذی ضمانت کے بجائے کسی منافع بخش اثاثے کو بطور ضمانت رکھوایا جاتا ہے جس کی مالیت حکومت کی جانب سے حاصل کی گئی رقم کے برابر ہوتی ہے۔
حکومت اس رقم کے عوض سرمایہ کار کو سود کے بجائے منافع ادا کرتی ہے۔ لہذٰا اس بندوبست کے ذریعے حکومت بھی اپنا کام چلاتی ہے جب کہ سرمایہ کار کی رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔
ماہر معیشت مزمل اسلم کے مطابق سکوک بانڈ ایک اسلامی بانڈ ہے اس میں سود کے بجائے منافع کا تصور ہوتا ہے۔
کیا سکوک بانڈز کے بعد اثاثے بک جاتے ہیں؟
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس بارے میں اعتراض کیے جا رہے ہیں کہ ملکی اثاثوں کو گروی رکھا جا رہا ہے اور ان کے ذریعے قرضے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اس بارے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی اعتراض کیا اور کہا کہ نوازشریف دور میں بنائے گئے اثاثوں کو رہن رکھا جا رہا ہے۔
لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے، پاکستان میں اب تک 32 بار سکوک بانڈز جاری کیے جا چکے ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت بھی شامل تھی۔
کیا یہ اثاثے گروی رکھنے سے کوئی اثر پڑتا ہے؟ اس بارے میں ماہر معیشت مزمل اسلم کہتے ہیں کہ حکومت نے موٹرویز یا اایئر پورٹس فروخت نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ سکوک میں بنیادی طور پر منافع کو جائز کیا جاتا ہے۔ حکومت نے جو اس رقم پر سود ادا کرنا ہوتا ہے اسے منافع کا نام دیا جاتا ہے اور منافع کے ساتھ کاغذی طور پر اہم اثاثوں کی ضمانت دی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب اثاثے اپنی جگہ پر ہیں اور حکومت کی ملکیت میں ہی رہیں گے، لیکن ان بانڈز کے اجرا کے لیے دستاویزی کارروائی ضروری ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں پرویز مشرف کے دور میں بھی سکوک بانڈز کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈالرز لیے گئے تھے جب کہ (ن) لیگ کے دورِ حکومت میں ایک ارب ڈالرز سکوک بانڈز فروخت کر کے حاصل کیے گئے اور ضمانت کے طور پر لاہور اسلام آباد موٹر وے کو رہن رکھوایا گیا تھا۔
ماضی میں کب کب بانڈز جاری ہوئے؟
ماضی میں بھی یہ سکوک بانڈز جاری کیے جاتے رہے ہیں اور موجودہ وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کے مطابق سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے آٹھ مرتبہ سکوک بانڈ جاری کیے۔
انہوں نے کہا کہ سکوک بانڈ کے لیے 2018 میں ایم ون، ایم ٹو، ایم تھری موٹر وے اور جناح ایئر پورٹ سمیت دیگر قومی اثاثے استعمال کیے گئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2008 سے 2018 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے 19 مرتبہ کھربوں روپے مالیت کے ڈومیسٹک سکوک بانڈ جاری کیے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بھی گزشتہ برس بانڈز جاری کرنے کے لیے اسلام آباد کے ایف ٹین پارک کا نام تجویز کیا لیکن اس پر شدید تنقید کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا اور اسلام آباد کلب کو گروی رکھنے کا کہا گیا تھا۔
کیا یہ اثاثے ضبط بھی ہو سکتے ہیں؟
اس بارے میں اسلام آباد کی مسلم یوتھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید حجازی کہتے ہیں کہ ایسا عام طور پر ممکن نہیں ہے. کیوں کہ یہ بانڈز ایسی اشیا کے عوض جاری کیے جاتے ہیں جن سے آمدن آ رہی ہوتی ہے۔ جیسے اگر موٹرویز کو گروی رکھ کر یہ بانڈز جاری کیے گئے ہیں تو ان کے ذریعے لگا تار آمدن حاصل ہو رہی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہ سکوک بانڈ کے ذریعے سو ڈالر کی رقم پر عام طور پرچھ فی صد تک منافع دیا جاتا ہے۔ لہذٰا اس میں منافع کی رقم پہلے ہی طے کر دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانڈز کے اجرا کے بعد اثاثے ضبط اس صورت میں ہوتے ہیں کہ اگر انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی 'موڈیز' کی ریٹنگ اس ملک کے حوالے سے بہتر نہ آئے۔ لیکن اب تک پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سکوک بانڈز کا اصول عام طور پر کسی پراجیکٹ کے لیے ہوتا ہے، جیسے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے اس کا اجرا کیا جا سکتا ہے کہ ڈیم مکمل ہونے پر اس سے اس قدر منافع حاصل ہو گا کہ ہم یہ رقم ادا کرسکیں گے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کے پاس معاشی ٹیم اچھی ہونا ضروری ہے۔ دنیا بھر میں یہ بانڈز جاری کیے جاتے ہیں لیکن اس کے لیے معاشی کارکردگی دکھانا بھی ضروری ہے۔
سکوک بانڈ کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر سید حجازی کہتے ہیں کہ اس میں دو چیزیں سب سے زیادہ ضروری ہیں کہ اس کے اجرا میں کوئی خفیہ مراعات یا شرائط نہ ہوں۔ کیوں کہ اگر خفیہ اخراجات یا چارجز وغیرہ ہوں تو اس سے سرمایہ کار کو نقصان ہوسکتا ہے اور بانڈز کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔
دوسرا نقصان پاکستان کی معیشت کے اندر موجود ایک نقص ہے کہ پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقابلہ میں اوسطاً تین فی صد سالانہ کے حساب سے گراوٹ کا شکار ہے۔
ڈاکٹر حجازی کے بقول اس تین فی صد کی وجہ سے حکومت پر ان بانڈز کے ساتھ دیے جانے والے منافع کے علاوہ تین فی صد سالانہ کا اضافی بوجھ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی معاشی وجہ سے اچانک بہت زیادہ گراوٹ آجائے تو یہ بوجھ کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس میں ہر سال اگر تین فی صد کا اضافہ کیا جائے تو حکومت کو بہت زیادہ ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ لوکل انویسٹر کو زیادہ متوجہ کیا جائے اور ملک کے اندر ان بانڈز کو زیادہ فروخت کیا جائے۔ پاکستان کے پاس فارن ایکسچینج بیرون ممالک سے بہت سے پاکستانی بھیجتے ہیں اور اس کا پاکستان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے لہذا اگر لوکل مارکیٹ اس میں شامل ہو تو پاکستان کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔