پاکستان کی حکومت نے بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ہفتے کی رات پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا قومی نظام ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات ایک بڑی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے بیٹھ گیا تھا۔ یہ خرابی گدو پاور پلانٹ کے ٹرپ کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
بجلی کی فراہمی میں یہ تعطل کئی گھنٹوں تک قائم رہا اور اس دوران کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان سمیت ملک کے بڑے شہر تاریکی میں ڈوبے رہے تھے۔
ملک بھر میں بجلی کے ترسیلی نظام کے معطل ہونے کی وفاقی سطح پر تحقیقات کی جاری ہیں۔ وزارتِ توانائی کی جانب سے ابتدائی طور پر بتایا گیا ہے کہ گدو پاور پلانٹ کے ٹرپ کرنے کی وجہ سے ٹرانسمیشن کا نظام بیٹھا۔
وزارتِ توانائی کے نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق 1978 کے نظم و ضبط کے قواعد کے تحت ڈیوٹی پر لاپرواہی کی وجہ سے بجلی کی بندش کا باعث بننے والے سات ملازمین کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے جو اگلے احکامات تک معطل رہیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
معطل ہونے والوں میں گدو پاور اسٹیشن کے ایڈیشنل پلانٹ مینیجر سہیل احمد، جونیئر انجینئر دیدار علی چیمہ، فورمین علی حسین گولو اور حاضر سروس آپریٹرز ایاز حسین، سعید احمد، سراج میمن اور الیاس احمد شامل ہیں۔
وزیرِ توانائی عمر ایوب خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بجلی کی بندش گدو اسٹیشن پر تیکنیکی خرابی کی وجہ سے ہوئی جس کے نتیجے میں چند سیکنڈز میں فریکوئنسی 50 سے صفر تک گر گئی۔
البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیک آؤٹ کی وجہ ناقص انتظامات اور اس کے نتیجے میں قومی گرڈ کے حفاظتی نظام کی ناکامی تھی۔
نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے سابق جنرل مینیجر ثالث عثمان کہتے ہیں کہ اس خدشے کی منصوبہ بندی اور اس سے بچاؤ کا حفاظتی انتظام موجود تھا۔ لیکن اس نے کام کیوں نہیں کیا؟ یہ تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے ترسیلی نظام کو ٹرپ ہونے سے بچانے کے لیے 'این مائنس ون' منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے تحت اگر کوئی بھی بڑا پاور پلانٹ ٹرپ کر جائے تو بھی نظام بحال رہ سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وزارتِ توانائی دعویٰ تو کرتی ہے کہ وہ 'این مائنس ون' پلان پر کام کر رہی ہے لیکن اس معاملے پر وہ کام نہیں کر سکی۔
ثالث عثمان کے بقول گدو پاور پلانٹ ٹرپ کرنے پر تین مرحلہ تحفظ کے نظام میں سے کسی ایک کو تو کام کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ تحفظ کا نظام کیوں فعال نہیں ہو سکا؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
توانائی امور کے ماہر اور نسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فیاض چوہدری کہتے ہیں این ٹی ڈی سی ملک کے قومی گرڈ کو چلاتا ہے جس کے تحفظ کے نظام کو گدو اسٹیشن کی ٹرپنگ پر ظاہر ہونا چاہیے تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بجلی گھروں کی جنوبی اور شمالی تقسیم کے باعث یہ خدشہ رہتا ہے کہ ٹرانسمیشن لائن ٹرپ نہ کر جائے اور سردیوں میں اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گرمیوں میں 24 ہزار میگاواٹ کی ترسیل اور سردیوں میں یہ طلب سات ہزار میگاواٹ پر آنے کی وجہ سے بھی ترسیلی نظام کو چلانا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سردیوں میں بجلی کی ترسیل اور طلب کو بڑھانا ہوگا جس کے لیے ضروری ہے کہ گیزر بجلی پر منتقل کیے جائیں۔
ماہرین کے مطابق 21 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک پاکستان میں بجلی کی ترسیل کا قومی نظام کافی پیچیدہ اور حساس ہے جس کے باعث نیشنل پاور گرڈ کے ایک حصے میں ہونے والی خرابی نے پورے ملک میں بلیک آؤٹ کر دیا تھا۔