پاکستان ان دنوں شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی میں ہونے والے حالیہ اضافے پر کنٹرول، غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی، برآمدات میں اضافہ کرنا اور قومی بچت پروگرام پر عمل درآمد کرانا حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔
ایسے میں ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال میں نئے سال کے دوران کسی بہتری کا امکان نہیں اور حکومت کو 2023 میں بھی اقتصادی چیلنجز کا سامنا رہے گا۔
معروف بروکریج ہاؤس 'اے کے ڈی سیکیورٹیز کمپنی' کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیاسی غیر یقینی اور معیشت بے سمت نظر آتی ہے اورحکومتِ پاکستان کے پاس معیشت کی اصلاح کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔
پاکستان کو رواں سال 23 ارب ڈالرز کے قرضے اتارنے ہیں اور تقریباً 9.5 ارب ڈالرز کے جاری کھاتوں کے اخراجات پورا کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔ اس صورتِ حال میں مرکزی بینک کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر محض 5.8 ارب ڈالرز رہ چکے ہیں۔
گزشتہ 12ماہ کے دوران زرِ مبادلہ کے ذخائر میں لگ بھگ 12 ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوچکی ہے۔ یوں رواں مالی سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اس کے مقابلے میں غیر ملکی زرِمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں مالی سال میں غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کوئی خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔ رواں سال برآمدات ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے آنے والی ترسیلات زر کم رہنے کے ساتھ غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی بتدریج کمی دیکھی جارہی ہے۔
ایسی صورتِ حال میں سیلاب سے پیدا شدہ حالات نے ملک کو انسانی بحران کے ساتھ غذائی بحران کی جانب بھی دھکیل دیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آٹے کی قیمت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں توانائی بچت پلان: مارکیٹیں رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہحالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کا تخمینہ الگ 16 ارب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ترقی کی شرح اندازوں سے کم رہنے کی توقع کی جارہی ہے جس سے بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ فی کس آمدنی میں کمی سے مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جانے کی توقع ہے۔
وفاقی حکومت نے منگل کو توانائی کی درآمدات کو کم کرنے کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت کاروباری سرگرمیاں رات آٹھ بجےاور شادی ہالز دس بجے بند کیے جائیں گے۔ حکومت کو امید ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد سے 200 ارب روپے سے زائد کی بچت ہوگی۔
'روپے کی قدر کو مستحکم رکھ کر قیمتوں کو کنٹرول کرنا نہیں چاہیے'
لیکن معاشی ماہر عبدالعظیم کا خیال ہے کہ حکومت کو معاشی پالیسیوں کو معقول بنانے کے لیے جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے اور ایسے فیصلے کرنے سے حکومت اس لیے کترارہی کیوں کہ اس کی نظریں آئندہ انتخابات پر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کے دیوالیہ ہوجانے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے حکومت کو قرضوں کی ادائیگی آسان بنانے کے لیے قرض دہندگان ممالک سے بات چیت کرکے انہیں روول اور کرانے کی اشد ضرورت ہے وہیں انتظامی اقدامات کے ذریعے روپے کی قدر کو مستحکم رکھ کر ملک میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
'اے کے ڈی سیکیورٹیز کمپنی' کی رپورٹ کے مطابق معاشی استحکام کے لیے پاکستان فور ی طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ نواں جائزہ مکمل کرکے قرض پروگرام کو بحال کرائے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف پروگرام میں موجودگی دیگر مالیاتی اداروں سے فنڈنگ لانے کی کاوشوں میں مدد فراہم کرے گی۔
SEE ALSO: سال 2023 عالمی معیشت کے لیے مشکل ہوگا: آئی ایم ایفخیال رہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے کرنسی کو مارکیٹ پر چھوڑنے ، محصولات میں ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے لیے نئے ٹیکسز لگانے، گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے جیسے مطالبات کررہا ہے جس پر حکومت ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔
معاشی ماہر عبدالعظیم کے مطابق مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے حکومتی اخراجات میں بڑی کمی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور ٹیکس ادا نہ کرنے والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی اشد ضرورت ہے
ان کے بقول، برآمدات کو فروغ دینے کے لیے صنعتوں کو سبسڈیز پر چلانے کے بجائے بہتر مسابقتی ماحول فراہم کیا جائے۔
'اے کے ڈی' کے ہیڈ آف ریسرچ عثمان زاہد کہتے ہیں کہ پاکستان میں قائم صنعتیں جس ماڈل پر کام کرتی ہیں ان میں وہ فکسڈ مارجنز، حکومتی سبسڈیز یا ٹیکس چھوٹ درکار ہوتی ہیں۔ ایسے میں معیشتیں پھلتی پھولتی نہیں اور وہ ہمیشہ محتاج رہتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت کے ذمے 97 ارب ڈالر بیرونی قرضے کا بوجھ خطرہ بنا ہوا ہےجس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو سنگاپور ماڈل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول سنگاپور کے پاس قدرتی وسائل کا فقدان تھا تو اس نے فنانشل سروسز کو اپنی آمدن کا ذریعہ بنایا جب کہ پڑوسی ملک بھارت کی اس سال صرف آئی ٹی ایکسپورٹ 170 ارب ڈالرز تک پہنچنے کی امید ہے اور پاکستان رواں سال 2.6 ارب ڈالر کی آئی ٹی ایکسپورٹ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس سستی لیبر شپ مہیا ہے اور آئی ٹی ایکسپورٹ کو باآسانی 10 ارب ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
عثمان زاہد کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہو گی اور رواں سال کے اختتام پر ایک ڈالر لگ بھگ 260 روپے کے اردگر ملے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس بناء پرمہنگائی کی شرح سال کے اختتام پر 25 فی صد رہنے کی توقع ہے جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو مزید شرح سود بڑھانا ہوگی، جو 16 سے بڑھ کر 18 فی صد پر پہنچنے کا امکان ہے۔
معاشی ماہر کے مطابق اس قدر بُلند شرح سود میں کاروبار چلانے کے لیےتاجروں کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا جو مزید بے روزگاری کی صورت میں سامنے آسکتی ہیں۔