گڈاپ ٹاؤن سے حاصل کیے گئے گندے پانی کے نمونوں میں وائرس کی تصدیق اس لیے بھی خطرناک ہے کیوں کہ اس علاقے میں گزشتہ کئی ماہ سے انسدادِ پولیو کی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی سمیت کئی دیگر بڑے شہروں میں پولیو وائرس کی موجودگی نے اقوام متحدہ اور شعبہ صحت سے متعلق ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ نے کراچی کے گڈاپ اور بلدیہ ٹاؤن سے حاصل کیے گئے گندے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کا انکشاف کو اس لیے بھی تشویشناک قرار دیا ہے کیوں کہ ان علاقوں میں گزشتہ کئی ماہ سے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے بیان میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے کی حالیہ مہم کے دوران عالمی ادارے کے مقامی اور غیر ملکی کارکنوں پر حملوں کی وجہ سے شہر کے بعض علاقوں میں پانچ برس سے کم عمر تمام بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔
کراچی انتظامیہ کے ڈپٹی کمشنر (ملیر) قاضی جان محمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گڈاپ میں پولیو وائرس کی موجودگی کی بڑی وجہ وہاں آباد افغان خاندان ہو سکتے ہیں۔
’’صرف یونین کونسل نمبر 4 میں تقریباً تین لاکھ کی آبادی ہے۔ وہاں پہلے بھی افغان کیمپ ہوا کرتے تھے اور اب بھی وہاں فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں) اور شمالی علاقوں سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘
وزیر اعظم کی مشیر برائے سماجی اُمور شہناز وزیر علی نے سرکاری میڈیا سے گفتگو میں عالمی ادارہ صحت کی انکشاف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ انسدادِ پولیو کی سرکاری مہم میں رکاوٹ نا ڈالی جائے۔
’’سیاسی مسئلے، مطالبے اپنی جگہ، لیکن کراچی میں وائرس پایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں انسدادِ پولیو مہم صحیح طریقے سے نہیں چل سکی ... (بلدیہ اور گڈاپ میں) ان حملوں کی وجہ سے اب یہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔‘‘
عالمی ادارہِ صحت کے بیان کے مطابق سکھر، حیدر آباد، لاہور، راولپنڈی اور پشاور سے اکٹھے کیے گئے گندے پانی کے نمونوں میں بھی پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق ان میں پی تھری وائرس کا بھی انکشاف ہوا ہے جو پولیو کی خطرناک ترین قسم قرار دی جاتی ہے کیوں کہ یہ وائرس بچوں میں بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اس امر کو بھی افسوس ناک قرار دیا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں متحرک عسکریت پسندوں کی جانب سے انسدادِ پولیو مہم پر پابندی کے باعث خطے میں کم از کم دو لاکھ بچے حالیہ قومی مہم کے دوران پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں۔
مزید برآں خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں سلامتی کے خدشات کے باعث ستمبر 2009ء سے انسدادِ پولیو کی سرکاری مہم نہیں چلائی جا سکی ہے جو پاکستانی اور غیر ملکی ماہرین کے بقول ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے۔
پاکستان بھر میں اس سال اب تک کم از کم 27 بچے جسمانی معذوری کا سبب بننے والے پولیو وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ صرف فاٹا میں اس سال اب تک پولیو کے 13 مصدقہ کیس سامنے آ چکے ہیں، جن میں سے 10 کی نشاندہی باڑہ میں کی گئی ہے۔
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں یہ صورت حال برقرار رہی تو پولیو کے خلاف قومی سطح پر شروع کی گئی ہنگامی مہم کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔
عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ نے کراچی کے گڈاپ اور بلدیہ ٹاؤن سے حاصل کیے گئے گندے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کا انکشاف کو اس لیے بھی تشویشناک قرار دیا ہے کیوں کہ ان علاقوں میں گزشتہ کئی ماہ سے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے بیان میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے کی حالیہ مہم کے دوران عالمی ادارے کے مقامی اور غیر ملکی کارکنوں پر حملوں کی وجہ سے شہر کے بعض علاقوں میں پانچ برس سے کم عمر تمام بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔
کراچی انتظامیہ کے ڈپٹی کمشنر (ملیر) قاضی جان محمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گڈاپ میں پولیو وائرس کی موجودگی کی بڑی وجہ وہاں آباد افغان خاندان ہو سکتے ہیں۔
’’صرف یونین کونسل نمبر 4 میں تقریباً تین لاکھ کی آبادی ہے۔ وہاں پہلے بھی افغان کیمپ ہوا کرتے تھے اور اب بھی وہاں فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں) اور شمالی علاقوں سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘
وزیر اعظم کی مشیر برائے سماجی اُمور شہناز وزیر علی نے سرکاری میڈیا سے گفتگو میں عالمی ادارہ صحت کی انکشاف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ انسدادِ پولیو کی سرکاری مہم میں رکاوٹ نا ڈالی جائے۔
’’سیاسی مسئلے، مطالبے اپنی جگہ، لیکن کراچی میں وائرس پایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں انسدادِ پولیو مہم صحیح طریقے سے نہیں چل سکی ... (بلدیہ اور گڈاپ میں) ان حملوں کی وجہ سے اب یہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔‘‘
عالمی ادارہِ صحت کے بیان کے مطابق سکھر، حیدر آباد، لاہور، راولپنڈی اور پشاور سے اکٹھے کیے گئے گندے پانی کے نمونوں میں بھی پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق ان میں پی تھری وائرس کا بھی انکشاف ہوا ہے جو پولیو کی خطرناک ترین قسم قرار دی جاتی ہے کیوں کہ یہ وائرس بچوں میں بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اس امر کو بھی افسوس ناک قرار دیا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں متحرک عسکریت پسندوں کی جانب سے انسدادِ پولیو مہم پر پابندی کے باعث خطے میں کم از کم دو لاکھ بچے حالیہ قومی مہم کے دوران پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں۔
مزید برآں خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں سلامتی کے خدشات کے باعث ستمبر 2009ء سے انسدادِ پولیو کی سرکاری مہم نہیں چلائی جا سکی ہے جو پاکستانی اور غیر ملکی ماہرین کے بقول ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے۔
پاکستان بھر میں اس سال اب تک کم از کم 27 بچے جسمانی معذوری کا سبب بننے والے پولیو وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ صرف فاٹا میں اس سال اب تک پولیو کے 13 مصدقہ کیس سامنے آ چکے ہیں، جن میں سے 10 کی نشاندہی باڑہ میں کی گئی ہے۔
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں یہ صورت حال برقرار رہی تو پولیو کے خلاف قومی سطح پر شروع کی گئی ہنگامی مہم کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔