صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کی سرکاری کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پیر کو اسلام آباد میں انسداد پولیو کی ہنگامی مہم کا با ضابطہ افتتاح کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا انسان کو زندگی بھر کے لیے مفلوج کر دینے والی اس بیماری سے بچاؤ کی کوششوں میں خصوصاً خواتین کو آگے بڑھ کر مرکزی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا شمار اُن چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کئی برسوں کی کوششوں کے باوجود پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جا سکا ہے۔
گذشتہ دہائی کے اوائل میں پاکستان نے انسداد پولیو سے متعلق اہداف حاصل کرنے میں خاطر خواہ پیش رفت کی تھی لیکن گذشتہ چند سالوں کے دوران اس بیماری کے نئے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کے دونوں اطراف قبائلی خاندانوں کی امدورفت اور پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں شورش کے باعث پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے والی طبی ٹیموں کی یہاں تک رسائی میں دشواری ہے۔
طبی ماہرین نے کہا ہے کہ گذشتہ سال ملک میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہونے والی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے باعث بھی پولیو وائرس دوسرے علاقوں میں منتقل ہوا اور 2010ء میں ملک میں پولیو سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 140 تک پہنچ گئی۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر پولیو کے خلاف مہم کا باقاعدہ آغاز 1994ء میں کیا گیا تھا جب ملک میں مجموعی طور پر سالانہ 30 ہزار بچے اس بیماری سے متاثر ہو رہے تھے۔
پاکستان کی حکومت نے رواں سال ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کا عزم کر رکھا ہے اور اس بیماری کے خلاف دنیا میں سب سے بڑی مہم چلانے والی تنظیم بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے بھی پاکستان میں پولیو کے انسداد کی مہم میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے بھی پاکستان میں بچوں کو پولیو اور خسرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے حال ہی میں 56 لاکھ ڈالر سے زائد کی اعانت فراہم کی ہے۔
گذشتہ دہائی کے اوائل میں پاکستان نے انسداد پولیو سے متعلق اہداف حاصل کرنے میں خاطر خواہ پیش رفت کی تھی لیکن گذشتہ چند سالوں کے دوران اس بیماری کے نئے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کے دونوں اطراف قبائلی خاندانوں کی امدورفت اور پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں شورش کے باعث پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے والی طبی ٹیموں کی یہاں تک رسائی میں دشواری ہے۔