پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ نو ماہ کے لیے تین ارب ڈالر کا معاہدہ

پاکستان نےکئی ہفتوں کی کوشش کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ایک نئے قلیل المدت اسٹینڈ بائی معاہدے کے لیے رضامند کر لیا ہے جس کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالرمل سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف کےعہدہ داروں کا کہنا ہے کہ مالیاتی فنڈ اور پاکستانی حکام کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہونے کے بعد جولائی کے وسط میں فنڈ کا ایگزیکٹو بورڈ اس کی منظوری دے سکتا ہے۔

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان نے اپنی تاریخ کا ایک اور آئی ایم ایف پروگرام نامکمل چھوڑا ہے۔

نئے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت پاکستان کو اگلے نو ماہ میں لگ بھگ تین ارب ڈالر تک کی رقم مل سکتی ہے جسے پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ معاہدہ 2019 سے جاری اسی پروگرام کی چھتری تلے ہو رہا ہے جس کی مدت آج یعنی 30 جون کو ختم ہو رہی ہے اور اس کے تین جائزے باقی تھے۔

خیال رہے کہ 2019 میں طے پانے والے چھ ارب ڈالر سے زائد بیل آؤٹ پروگرام کے آٹھ جائزے مکمل ہوئے تھے جس کے تحت اسلام آباد کو چار برس میں لگ بھگ تین ارب 40 کروڑ ڈالر کی رقم ملی جب کہ مزید 2 ارب 60 کروڑ ڈالر کی رقم نہیں مل پائی کیوں کہ وہ نواں جائزہ مکمل نہ ہوسکا جو گزشتہ سال اکتوبر میں ہونا تھا۔ اس کی وجہ فریقین کے درمیان پروگرام پر عمل درآمد کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات تھے.

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگست 2022 میں پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں جائزوں کی تکمیل کے بعد سے پاکستانی معیشت کو کئ جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں 2022 میں ملک میں آنے والا تباہ کن سیلاب بھی تھا جس نے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا جب کہ دوسری جانب روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے بھی معیشت متاثر ہوئی۔ نہ صرف یہ عوامل بلکہ پاکستانی حکام کی کچھ غلط پالیسیوں خاص طور پر تبادلہ مارکیٹ کے کام میں رکاوٹوں کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'آئی ایم ایف سے مذاکرات، اخباری بیان بازی سے نہیں کیے جاتے'

آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ ان چیلنجز کےپیش نظر، نیا معاہدہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنڈنگ کے حصول میں مدد دے گا۔

اس معاہدے کو حتمی شکل ملنے سے قبل حکومت پاکستان نے بھی متعدد اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان میں پارلیمان کی جانب سے منظور ہونے والے نئے بجٹ میں ایسے اقدام کیے گئے ہیں جس سے مالی استحکام میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی وسائل کا رُخ معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے زیادہ خرچ کیے جانے کی جانب کیا گیا ہے۔ اس عمل سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے انتہائی غریب افراد کی جانے والی مدد بڑھائی جاسکے گی۔

اسی طرح آئی ایم ایف نے پاکستان کی ان کوششوں کو بھی سراہا ہے جس کے تحت ٹیکس بیس میں وسعت پیدا کی گئی ہے اور ایسے شعبوں میں بھی جہاں ٹیکس کی وصولی کم ہے،اسے بڑھانے میں مدد ملے گی اور نتیجے کے طور پر بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکے گا۔

تاہم فنڈ نے اپنی پریس ریلیز میں واضح کیا ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اہم ہوگا کہ منظور شدہ بجٹ پر من و عن عمل درآمد کیا جائے اور مختص رقم سے زیادہ کے اخراجات اور ٹیکس استثنیٰ دیے جانے سے گُریز کیا جائے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان ڈیفالٹ کا خدشہ، عالمی میڈیا کی نظر سے

بیان میں ایک اور جگہ کہا گیا ہے کہ ملکی معیشت کو درپیش مشکل چیلنجز کی روشنی میں پروگرام کا مکمل اور بروقت نفاذ اس میں کامیابی کے لیے اہم ہوگا۔

آئی ایم ایف کے جاری شدہ بیان میں پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج ریٹ کے مکمل مارکیٹ تعین کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہونے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو افراط زر کو کم کرنے کے لیے متحرک رہنا چاہیے جو خاص طور پر ملک کے سب سے زیادہ کمزور طبقات کو متاثر کرتا ہے اور اسی طرح موجودہ بین الاقوامی لین دین اور مختلف کرنسیوں میں ادائیگیوں اور منتقلی پر پابندیوں سے پاک غیر ملکی کرنسی کا فریم ورک برقرار رکھنا چاہیے۔

فنڈ کے مطابق پاکستان کو توانائی کے شعبے کی عمل داری کو مضبوط بنانے کے لیے جاری کوششیں، ریاستی ملکیت والے کاروباری اداروں میں گورننس کو بہتر بنانا، اور عوامی سرمایہ کاری کے انتظام کے فریم ورک کو مضبوط کرنا، اور موسمیاتی تبدیلیوں میں لچک پیدا کرنے کے لیے درکار منصوبوں پر عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے نئے اسٹینڈ بائی پروگرام کی منظوری پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

’ یہ پروگرام ملک کو ڈیفالٹ سے بچا سکتا ہے‘

ماہر معاشیات سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان اس سے قبل 2008 اور 2000 میں بھی اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کرچکا ہے اور یہ نیا پروگرام توقعات سے بڑھ کر پاکستان کی مالی مدد کررہا ہے۔

ان کے بقول ملک میں اس بارے میں کافی زیادہ غیر یقینی صورتِ حال تھی کہ جون 2023 میں پروگرام کے اختتام کے بعد کیا حالات ہوں گے جب پروگرام کے اختتام کے ساتھ موجودہ حکومت کی آئینی مدت بھی ختم ہونے کے قریب ہے اور پھر نگراں حکومت کے بعد ہی نئی حکومت برسرِ اقتدار آئے گی جو اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم اب نو ماہ میں تین ارب ڈالر فنڈنگ یقینی طور پر کچھ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں مدد دیں گے۔ دوسری جانب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر مالیاتی اداروں کی جانب سے رقوم ملنے کی بھی امید بڑھ گئی ہے جس سے ملک کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد ملے گی جو اس وقت تشویش ناک حد تک کم ہیں۔

ان کے بقول ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کے مشکل معاشی حالات میں کسی بڑی نعمت سے کم نہیں جس سے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

’عوام کو مزید مہنگائی کے لیے تیار رہنا ہوگا‘

ایک اور معاشی ماہر عبد العظیم خان کا بھی کہنا ہے کہ معاہدے سے جہاں ملک میں سیاسی قیادت کی تبدیلی کے دوران کسی حد تک استحکام میں مدد مل سکتی ہے وہیں اس سے ملک کو ادائیگیوں کے درپیش بحران میں کسی حد تک ریلیف ملنے کی توقع ہے جب کہ اس دوران حکومت کو مالیاتی اداروں اور دیگر ممالک سے قرضوں کی ری شیڈولنگ اور نئے قرضوں کے حصول کے لیے بھی کچھ وقت ضرور مل سکے گا۔

ان کے بقول دوسری جانب واضح نظر آ رہا ہے کہ اس پروگرام سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور حکومت کے لیے پروگرام میں رہتے ہوئے ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کو کنٹرول میں رکھنا ناممکن ہوگا جس سے روپے کی قدر گرنے پر عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا جو پہلے ہی تاریخی سطح پر ہے۔َ