پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ بھارت کا انحصار دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان بھوٹان میں چھ اور سات فروری کو سارک قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات میں ہونے والی پیش رفت پر ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے ایک تازہ بیان میں اپنے پاکستانی ہم منصب کو نئی دلی کا دورہ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ دونوں ملک مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں لیکن ساتھ ہے انہوں نے اس مطالبے کو بھی دہرایا تھا کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ملزمان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائے اور اس بات کو یقینی بنائےکے پاکستانی سرزمین ایس ایم کرشنا کے بقول بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔
اس بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے سرکاری ٹیلی وژن کو انڑویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھی بھارت سے بات چیت کے لیے رضا مند ہے لیکن اس کے لیے پہلے بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ملاقات میں ایک ایجنڈہ طے کیا جانا چائیے۔
’’اگر ایک جامع ایجنڈا طے کر لیا جاتا ہے تو پاکستانی وزیر خارجہ یقیناً بھارت کا دورہ کریں گے ، ہم خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کے منتظر ہیں اور اس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
توقع ہے کہ اس ملاقات میں دونوں عہدیدار امن کے اس عمل کو بحال کرنے کی راہیں تلاش کریں گے جو بھارت نے نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد معطل کر دیا تھا۔
دونوں خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان آخری ملاقات گذشتہ سال ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی جبکہ وزیر خارجہ سطح کی آخری ملاقات گذشتہ سال جولائی میں اسلام آباد میں ہوئی تھی لیکن دونوں ہی سطحوں پر دو طرفہ تعلقات میں کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔
ایک ایسے وقت پر جب سرکاری سطح پر امن عمل جمود کا شکار ہے ایک غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ نے دونوں ملکوں کے قانون سازوں کے درمیان اس ہفتے اسلام آباد میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں بھارت سےکانگریس اور بی جے پی کے ارکان سمیت سات رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ پاکستان کی طرف سے بھی حکمران جماعت اس کے اتحادی اور اپوزیشن جماعت کے رہنما شریک ہوئے۔
تنظیم کے سربراہ احمد بلال نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ پارلیمانی سفارت کاری کی یہ کوشش ان کے مطابق توقع سے زیادہ مفید ثابت ہوئی کیونکہ دونوں اطراف سے باہمی تعلقات آگے بڑھانے کی خواہش ظاہر کی گئی اور مذاکرے کے شرکاء نے اپنی اپنی حکومتوں پر اس ضمن میں زور دینے کا عزم کیا۔
پاکستان کا اصرار ہے کہ بھارت اسے مذاکرات کے لئے کشمیر، سیاچن اور پانی کے تنازعات سمیت دیگر معاملات کو طے کرنے کے لیے ایک روڈ میپ دے جبکہ نئی دلی نے امن عمل کے فروغ کو اسلام آباد کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی ٹھوس کارروائیوں اور ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو سزا دینے سے مشروط کر رکھا ہے۔