جمعے کو پاکستان اور بھارت کے خارجہ سکریٹریوں نے اسلام آباد میں باہمی امور پر دو روزہ مربوط مذاکرات کا دور مکمل کیا، جِس پر تبصرہ کرتے ہوئے، نئی دہلی کے سیاسی تجزیہ کار سنتوش بھارتیہ نے کہا کہ ان مذاکرات سے بہت سی توقعات تھیں لیکن نتائج سامنے نہیں آئے۔
کشمیر پر پاکستانی وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے دیے گئے ایک بیان کا ذکر کرتے ہوئے، سنتوش بھارتیہ نے کہا کہ ، ’سیاستداں کسی بھی چیز کو برباد کرنے میں ماہر ہوتے ہیں‘۔
اُن کے الفاظ میں، پاکستان کے وزیر اعظم نے بیان دیا کہ ہم کشمیر کے لیے لڑیں گے اور کشمیر نہیں جانے دیں گے۔ بات یہ ہے کہ سیاست کے لیے جذباتی بیانات دیں گے تو اِس کا کوئی سیاسی حل نہیں نکلے گا۔ اُن کو اِس طرح کا بیان نہیں دینا چاہیئے تھا، جس کا ہندوستان میں ردِ عمل ہوا ہے۔‘
یہ معلوم کرنے پر کہ کیا بات چیت میں افغانستان کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، سنتوش بھارتیہ نے کہا کہ اگر بند کمرے میں ایسی کوئی بات ہوئی ہو تو نہیں کہا جاسکتا،’ لیکن اِس کا امکان کم لگتا ہے‘۔
جنوبی ایشیا کے لیے میڈیا تنظیم سافما کے نمائندے، امتیاز عالم نے پاکستان بھارت سکریٹری سطح کی ملاقات کو ’حوصلہ افزا‘ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین سکریٹری سطح کے مربوط مذاکرات کا عمل مکمل ہوا ِجس میں اعتماد سازی، نیوکلیئر اور دہشت گردی کے امور پراور ممکنہ طور پر کشمیر پر بھی بات چیت ہوئی ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف جو اعتماد سازی کے اقدامات ہیں اُن کو اہمیت دی جائے۔
اور، امتیاز عالم کے بقول، معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات میں ماحول اچھا رہا ، اور اب تک ہونے والی بات چیت تسلی بخش رہی ہے۔
جب اُن سےپاکستانی وزیر اعظم کےکشمیر سے متعلق بیان پر رائے معلوم کی گئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ روایتی مؤقف رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ ’دراصل، کشمیر میں الیکشن ہو رہے ہیں اور وہاں پرپاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مدِ مقابل ہیں اور وہاں ایک بڑا سیاسی معرکہ ہو رہا ہے۔ اِس لیے اِس انتخابی مہم میں اِس طرح کی نعرے بازیاں ہوتی ہیں۔‘
اگلے ماہ پاکستان بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے۔ یہ معلوم کرنے پر کہ اُس ملاقات میں بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھنے کے کیا امکانات ہیں، امتیاز عالم نے کہا کہ ’یقینا ً آگے بڑھنے چاہئیں۔ لیکن، بھارت پاکستان کے تعلقات کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے آپ کو بہت بڑا جوتشی ہونا پڑے گا، جو میں نہیں ہوں۔‘