بھارت کے وزیر داخلہ کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد نے کہا ہے کہ یہ بھارتی کشمیر میں جاری کشیدہ صورتحال اور وہاں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر سے بین الاقوامی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
اتوار کو بھارتی کشمیر میں ایک فوجی ہیڈ کوارٹر پر مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے میں 17 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں الزام عائد کیا تھا کہ "پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے" اور انھیں "افسوس ہے کہ پاکستان دہشت گردی و دہشت گرد گروپوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔"
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت جب دنیا کی نظریں بھارتی کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے مقامی آبادی پر ان کے بقول ڈھائے جانے والے مظالم پر لگی ہوئی ہیں، ایسے بیانات کا مقصد اس جانب سے توجہ ہٹانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں کہ بھارت مبینہ طور پر یہاں دہشت گردی اور بدامنی میں ملوث ہے۔
"یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ کوئی واقعہ ہوا یا دہشت گردی کی تناظر میں وہ الزام تراشی کر رہے ہیں۔۔۔دراصل یہ بھارت ہے جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہا ہے، ریاستی دہشت گردی مقبوضہ کشمیر میں کروا رہا ہے اور سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ دنیا کی توجہ اس طرف سے ہٹ جائے۔"
اسلام آباد کی طرف سے بھارت پر پاکستان میں دہشت گردی کے الزامات کو نئی دہلی مسترد کرتا آیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان بھرپور انداز میں کشمیر کا معاملہ اٹھانے جا رہا ہے، بھارت کی طرف سے ایسے بیانات ان کے بقول پوری طرح سے بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں۔
"پوری دنیا کی نظریں کشمیر پر ہیں جہاں بھارت اپنے مظالم ڈھا رہا ہے، (اس سے قطع نظر کہ) کشمیری کیا چاہتے ہیں بھارت ظلم و بربریت سے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ناکام رہا ہے اور ناکامی کی وجہ سے وہ بوکھلایا ہوا ہے اور تمام تر کوشش کر رہا ہے کہ کسی طریقے سے دنیا کی نظریں کشمیر میں مظالم سے ہٹ جائیں۔"
بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ الزام تراشی دونوں ملکوں کے درمیان اور کشمیر میں کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اتوار کو ہونے والے حملے میں کون ملوث تھا لیکن کشمیر میں جاری کشیدہ صورتحال کے تناظر میں ایسے واقعات اضطرابی ردعمل کے عکاس ہو سکتے ہیں۔
"یہاں جو عوامی بغاوت تھی اس پر راج ناتھ سنگھ کوئی مثبت ردعمل نہیں دے پائے اور اب اس طرح کے حملے انھیں یہ بہانہ مہیا کرتے ہیں کہ وہ اس تحریک سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کریں۔۔۔مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہوا ہی ایسا ماحول پیدا کرتا ہے کہ جس سے یہ سب چیزیں ہو سکتی ہیں، کشیدگی بھی بڑھے گی اور عوام میں اضطراب بھی۔"
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جولائی میں ایک علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور دو ماہ قبل شروع ہونے والے بھارت مخالف مظاہروں میں اب تک 80 کے لگ بھگ افراد مارے جا چکے ہیں۔
کشمیر دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین روز اول ہی سے متنازع ہے۔ امریکہ بھی یہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تصفیہ طلب معاملات کے لیے بات چیت کی راہ اختیار کریں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی خطے کے امن کے لیے مضر ثابت ہو گی۔