پاکستان کو قرض اتارنے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے

کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے اور شرح نمو میں کمی آئی ہے۔

پاکستان کے ایک غیر سرکار ی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفامز کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اپنے گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ صورت حال ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک کی طرف سے قبل ازیں جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران ملک کے قرضوں کے حجم میں 14 کھرب سے زائد اضافے کے بعد جون 2020 کے آخر تک پاکستان کے مجموعی واجب الادا قرضوں کا حجم 44 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔

پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں سے متعلق غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال 2020 کے اختتام تک توانائی کے شعبے میں پاکستان کے گردشی قرضے 21 سو ارب سے تجاوز کر گئے ہیں۔

پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر خان کی سرپرستی میں کام کرنے والے غیر سرکاری تھینک ٹینک انسٹی ٹیٹو ٹ فارپالیسی ریفارمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ صورت حال ملک میں مالی معاملات کے بہتر انتظام کار اور پیدواری شعبے میں شرح نمو کو بڑھانے کی استعداد کار کی کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔

اگرچہ موجودہ حکومت کا موقف رہا ہے کہ اسے قرضوں کا بوجھ گزشتہ حکومتوں سے ورثے میں ملا ہے اور حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے سال ملک میں قرضوں کے بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کے کئی پروگرام وضح کیے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ پاکستان کے معاشی چیلنج مزید گھمبیر ہو گئے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بجلی کے شعبے کے قرضوں اور نقصانات اور پاکستان میں بڑھتا ہوا قرض تشویش کا باعث ہے اور حکومت کے لیے ان معاملات سے نمٹنا ایک چیلنج ہے۔

پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں میں اضافہ معیشت پر بوجھ بن رہا ہے۔

اقتصادی امور کے تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ موجود صورت حال میں پاکستان کے ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دینے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ تاہم ان کا مشورہ ہے کہ حکومت بجلی کے شعبے اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والی صنعتوں کی وجہ سے بڑھنے والے مالیاتی خساروں کے بوجھ کو کم کر کے قرضوں کے معاملے سے بہتر طور نمٹ سکتی ہے۔

ان کے بقول مالی سال 2019 اور 2020 میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے صنعتی اداروں کے خسارے اور دیگر مصارف کے تحت ہر سال حکومت پر 18 سو ارب کا بوجھ ہے۔

اگرچہ حکومت کا موقف ہے کہ ملک میں معاشی مشکلات کی وجہ سے محصولات میں اضافہ ممکن نہیں رہا، لیکن اقتصادی امور کے تجزیہ کار فرح سہیل کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک پر بڑھتے ہوئے قرضوں کو کم کرنے کے لیے ہمیں معاشی خسارہ کم کرنے کی توجہ دینا ہو گی۔

دوسری طرف فرح سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کا معاشی خسارہ بڑھنے کی وجہ ملک میں توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے ہیں جن میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ بتایا جا رہا ہے کہ گردشی قرض لگ بھگ 21 سو ارب روپے ہے، لیکن حقیقت میں ماہرین کے مطابق اب یہ 23 سو ارب سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔

کئی عوامل نے صنعتی شعبے کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔

فرح سلیم کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری سرپرستی میں چلنے والی صنعتوں کا خسارہ کم کر دیا جائے تو پاکستان اپنے قرضوں میں کمی کر سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے تحریک انصاف کے منشور میں ملکی معیشت کی ترجیحات بڑی واضح ہیں جن میں حکومتی سرپرستی میں خسارے میں چلنے والی صنعتوں اور تجارتی اداروں کے معاملات کو درست کیا جائے گا لیکن ابھی اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھانا باقی ہیں۔

اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حکومت کو غیر ضروری مصارف کم کرنے پر توجہ دینا چاہیے، لیکن دوسری جانب ترقیاتی منصوبوں کے مصارف میں کمی کرنا شاید مناسب نہیں ہو گا۔

عابد سلہر ی کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستانی معیثت کی موجود صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی متوقع نہیں ہے کیونکہ جب تک کرونا وائرس کی غیر یقینی صورت حال برقرار رہتی ہے اس وقت تک حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ چھوٹے کاروباری اداروں اور سماجی شعبوں کی بحالی پر وسائل خرچ کرے تاکہ معیشت رواں رہے۔ اس صورت حال میں حکومت کو اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے چاہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں معاشی سرگرمیاں پوری طرح بحال نہیں ہو جاتیں، اس وقت تک حکومت کو قرضوں کی ضرورت رہے گی۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ ماہ ملک بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات زر اور ملکی برآمدات میں اضافہ کی وجہ سے ملک کی ادائیگی کے توازن میں بہتری آئی ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے تحت ہونے والے ایک آن لائن اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ کرونا وائرس نے پاکستانی معیشت کی کامیابیوں کو کم کرنے میں اثر انداز ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں اگر حکومت اپنی معاشی اصلاحات جار ی رکھتی ہے تو محروم طبقات کے لیے وسائل اور ترقیاتی شعبے کے لیے وسائل کی فراہمی ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ تاہم مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے واضح کیا کہ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے افراد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے لیے حکومت کو مزید قرض کی ضرورت ہو گی کیونکہ شرح نمو میں کمی کے پیش نظر ٹیکس محصولات میں اضافہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔