پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران 14 کھرب روپے سے زائد کے اضافے کے بعد جون 2020 کے آخر تک پاکستان کے واجب الادا قرضوں کا حجم 44ہزار 563 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا ہے کہ جون 2020 کے آخر تک پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا حجم 78 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
مشیرِ خزانہ کے بقول ٹیکس محصولات میں اضافے اور قومی پیداوار کی شرح نمو میں خاطر خواہ اضافے کے لیے جامع اقتصادی اصلاحات اور ٹیکس نیٹ میں اضافے اور اخراجات کو مؤثر طور پر کنٹرول کیے بغیر بڑھتے ہوئے قرضوں کے حجم کو محدود رکھنا شاید آسان نہ ہو۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق جون 2020 کے آخر تک پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کا 106 فی صد ہے۔ جو باعثِ تشویش امر ہے۔
تاہم بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قرضے پیداواری شعبے کی بحالی کے لیے استعمال کیےجائیں تو یہ قرضے معیشت کے لیے بوجھ نہیں ہوں گے۔ اگر ان قرضوں کو غیر پیداواری شعبوں اور پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تو یہ اقدام ملکی معیشت کے لیے سود مند نہیں ہو گا۔
پاکستان کی معیشت پر نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالیہ قرضوں کا حجم حالیہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ جو مجموعی قومی پیداوار کا 106 فی صد ہے۔
مہتاب حیدر کے بقول پاکستان کے مجموعی قرضوں میں انتہائی اضافے کی وجہ مجموعی قومی پیداوار میں کمی ہے۔ جب کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی شرح نمو میں کمی واقع ہوئی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کے محصولات میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔
صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی شرح نمو 0.4 فی صد رہی۔ اس کے ساتھ گزشتہ کئی برس کے دوران پاکستان کی نان ٹیکس محصولات میں صرف 9 سے 10 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی مصارف میں 20 سے 25 فی صد ہو چکا ہے۔ اس صورتِ حال میں حکومت قرضوں کی مدد سے ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
ان کے بقول اگر کسی بھی ملک کے مجموعی قرضے قومی پیداوار کے 60 فی صد سے بڑھ جائیں۔ تو یہ امر باعث تشویش ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے قرضے کی شرح مجموعی قومی پیداوار کے 100 فی صد سے بھی بڑھ چکے ہیں۔
مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ اگر معاشی نمو کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہو اور معیشت کا حجم بڑھ رہا ہو اور قرضوں کو پیداواری شعبے میں استعمال کیا جائے۔ تو کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن اگر قرضوں سے سود کی ادائیگی کر کے مزید قرض حاصل کیا جائے تو اس کی وجہ سے معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔
ان کے بقول اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے معیشت کی بنیادی اشاریوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اگر ملک کا حاصل کردہ قرضہ پیداواری شعبے میں استعمال کیا جائے تو یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ پیداواری شعبے میں استعمال ہونے والے قرض کی ادائیگی کا معاملہ حل ہو جاتا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرضہ غیر پیداواری مد میں زیادہ استعمال ہو جاتا ہے جس میں پرانے قرضوں کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے ہم قرضوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
فرخ سلیم کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کی توجہ محصولات بڑھانے پر مرکوز رہی ہے لیکن وسیع اقتصادی اصلاحات کے ذریعے ہی ملک کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔
فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ حکومت کی توجہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے پر ہوتی ہے۔ ایک دہائی پہلے پاکستان کی ٹیکس محصولات کا حجم لگ بھگ 1200 ارب روپے تھے۔ اب یہ چار ہزار ارب روپے ہو گیا ہے۔ اس لیے ان کے ٹیکس محصولات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا لیکن دوسری طرف حکومت کی سر پرستی میں چلنے والے اداروں کے خسارے میں کئی گنا اضافہ بھی ہوا ہے۔
ان کے بقول اگرچہ حکومتی سر پرستی میں چلنے والے اداروں اور پاکستان کے گردشی قرضوں کا حجم 2100 ارب سے بڑھ گیا ہے۔ اگر ان اخراجات میں 50 فی صد کمی بھی کر لی جائے تو ملک کی معیشت پر دباؤ میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے جب تک وسیع پیمانے پر اصلاحات نہیں کی جاتیں۔ خدشہ ہے کہ قومی قرضے اور اخراجات میں تیزی سے اضافہ جاری رہے گا۔
دوسری طرف اقتصادی امور کے ماہر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ حکومت کو غیر ضروری درآمدات اور ترقیاتی اخراجات میں واضح کمی کرنے کی ضرورت ہے۔
قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں ایک کھرب روپے تک کی کمی کی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے ملکی معیشت پر بوجھ کم ہو گا۔
دوسری طرف حکومت عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت درست سمت پر گامزن ہے۔ حکومت قومی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے اور ملکی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔