پاکستان میں متنازع ’میمو‘ کی تحقیقات کرنے والے اعلیٰ عدالتی کمیشن نے اس اسکینڈل کے اہم گواہ امریکی شہری منصور اعجاز کو 16 جنوری کو اپنے موقف کمیشن کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے پاکستان آمد پر اُن کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں فوج کے ایک مسلح دستے کی تعیناتی کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن کے اجلاس میں سابق سفیر حسین حقانی نے بھی پہلی مرتبہ پیش ہو کر اپنا ابتدائی بیان دیا۔
وفاقی دارالحکومت کی ہائی کورٹ کی عمارت میں ہونے والی اجلاس کی کارروائی کے دوران منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کمیشن سے استدعا کی کہ اُن کے موکل کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے حکومت کی طرف سے کمیشن کو اس سلسلے میں یقین دہانی بھی کرائی۔
لیکن امریکی شہری کے وکیل نے وفاقی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ ذمہ داری پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو سونپنے کی تجویز پیش کر دی۔
اس حوالے سے طرفین کے دلائل سننے کے بعد تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ قاضی فائض عیسٰی نے اسلام آباد پولیس کے ساتھ پاکستانی فوج کے مسلح جوانوں کے ایک دستے کو بھی منصور اعجاز کی حفاظت پر مامور کرنے کا حکم جاری کیا۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں اکرم شیخ نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل 16 جنوری کو اسلام آباد پہنچ کر کمیشن کے سامنے بیان دیں گے لیکن اُنھیں ای میل کے ذریعے موصول ہونے والے دھمکی آمیز پیغامات کے تناظر میں پاکستان آمد پر اُن کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کی درخواست کی گئی۔
’’اُنھیں (منصور اعجاز کو) وفاقی حکومت کے رحم وکرم پہ نہیں چھوڑا جا سکتا اس لیے کہ وہ وفاقی حکومت کے خلاف گواہی دینے آ رہے ہیں۔‘‘
اکرم شیخ نے کہا کہ کمیشن نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ پاکستان آمد پر وفاقی یا کوئی صوبائی حکومت منصور اعجاز کے خلاف مقدمہ درج نا کرے اور ناہی اُنھیں گرفتار کیا جائے۔
اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو منصور اعجاز کی حفاظت کی ذمہ داری سوپنے کے سلسلے میں عدالتی کمیشن نے حکم جاری کر دیا ہے جس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
اس سے قبل سابق سفیر حسین حقانی نے کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں ایک بار پھر اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ میمو تحریر کرنے اور اسے امریکی حکام کو بھیجنے سمیت کسی بھی معاملے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس اسکینڈل میں انھیں جان بوجھ کر ملوث کیا گیا ہے۔
اُدھر اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ کمیشن کے اجلاس میں شریک آئی ایس آئی کے ایک نمائندے کرنل خالد کو یہ بتایا گیا ہے کہ خفیہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اپنا موقف سیل بند لفافے میں کمشین کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔