دنیا بھر میں موبائل فون آپریٹرز کے مفادات کے لیے کام کرنے والی 'تنظیم گلوبل سسٹم فار موبائل کمیونیکیشن' نے حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں 21ویں صدی کے آغاز پر موبائل فون کی مارکیٹ نے تیزی سے ترقی کی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد جنوبی ایشیا کی مجموعی اوسط سے کم ہے۔
بھارت اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس میدان کے کئی شعبوں میں پاکستان اپنے پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے ہے۔
'گلوبل سسٹم فار موبائل کمیونیکیشن؛ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے۔ مختلف سروسز جن میں ریٹیلز، ٹرانسپورٹ اور بینکنگ کے شعبے شامل ہیں، میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان جنوبی ایشیا میں موبائل کنیکٹیوٹی کے اعتبار سے دیگر ممالک سے پیچھے ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اب بھی 10 میں سے 5 سے بھی کم افراد موبائل براڈ بینڈ یعنی تھری جی اور فور جی سروسز استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان میں 2005 میں انٹرنیٹ کے ساتھ موبائل فون استعمال کرنے والے افراد جنوبی ایشیا کی اوسط شرح سے زیادہ تھے جو اب بھی 41 فی صد یعنی 8 کروڑ 90 لاکھ کے قریب افراد ہیں۔ لیکن جنوبی ایشیا میں اب یہ شرح 52 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2025 تک پاکستان میں اندازہ ہے کہ 49 فی صد لوگ موبائل فون استعمال کرنے لگیں گے۔ تاہم تب بھی یہ شرح جنوبی ایشیا کی شرح سے 10 فی صد کم رہنے کا امکان ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس وقت ایران، سری لنکا، انڈونیشیا، قازقستان، بھارت، ازبکستان اور حتیٰ کہ نیپال میں بھی موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے تاہم بنگلہ دیش اور افغانستان اس شعبے میں فی الحال پاکستان سے پیچھے ہیں۔
'انٹرنیٹ کے ساتھ موبائل فون کے استعمال میں اصل رکاوٹ مہنگے موبائل ہینڈ سیٹ ہیں'
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چند سال میں 8 کروڑ 10 لاکھ کے قریب افراد اسمارٹ موبائل فون کا استعمال کرنے لگے ہیں تاہم ہینڈ سیٹس کی قیمت انتہائی زیادہ ہونے کے باعث پاکستان میں اس کی فروخت کی شرح بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2020 میں حکومت کی جانب سے درآمد شدہ اسمارٹ فونز پر ٹیکس کی شرح میں اضافے سے صورت حال مزید گھمبیر ہو گئی ہے۔
پاکستان کی سرکاری ٹیلی کام کمپنی 'پی ٹی سی ایل' کے سابق چیف کمرشل افسر فرقان قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عام طور پر موبائل فون ہینڈ سیٹ تین مراحل سے گزرتا ہے۔ نئے موبائل فون خریدنے والوں کی تعداد استعمال کرنے والوں کی تعداد کے محض 15 سے 20 فی صد تک ہوتی ہے جو کچھ ہی استعمال کے بعد اسے فروخت کر دیتے ہیں جس سے اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور پھر عام مارکیٹ میں یہ موبائل فون تب دستیاب ہوتا ہے جب وہ تیسری بار فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد بالکل نئے ہینڈ سیٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر موبائل فون باہر سے درآمد کرنے پڑتے ہیں تاہم اب حکومت نے کچھ بنیادی اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 26 کمپنیوں کو مقامی سطح پر موبائل فون کی تیاری کی اجازت دی ہے۔
اس اجازت سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہونے کا ذکر بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ آئندہ چند برس میں پاکستان میں بھی موبائل فون بننا شروع جائیں گے جس کا اثر آگے جا کر مقامی مارکیٹ میں موبائل فون کی قیمتوں پر دکھائی دے گا۔
پاکستان میں موبائل پر انٹرنیٹ کے استعمال کرنے کے لیے آپ کون کون سے ٹیکس دیتے ہیں؟
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیلی کمیونیکشن سیکٹر پر اس وقت بھارت اور ایران کے مقابلے میں سب سے زیادہ یعنی 19.5 فی صد تک سیلز ٹیکس عائد ہے۔
پاکستان میں عام طور پر صارفین کو انٹرنیٹ کنیکشن کے ساتھ موبائل فون استعمال کرنے کے لیے چھ مختلف ٹیکسز ادا کرنا ہوتے ہیں۔ ان میں سم کارڈ ٹیکس، ایکٹیویشن ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ہینڈ سیٹ ٹیکس، استعمال پر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بھی شامل ہے۔
بنگلہ دیش میں چار اقسام، سری لنکا میں تین اور نیپال میں محض دو اقسام کا ٹیکس اس مقصد کے لیے ادا کرنے ہوتے ہیں۔
اسی طرح موبائل فون آپریٹرز کو بھی کارپوریٹ انکم ٹیکس، سوشل سیکیورٹی کنٹریبیوشن، کیپیٹل ویلیو ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس، اسٹیمپ ڈیوٹیز، کسٹمز ڈیوٹیز اور سپر ٹیکس کی مد میں رقم حکومت کو ادا کرنی ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر انٹرنیٹ تک رسائی کو بنیادی حق تسلیم کیا جا رہا ہے تو حکومت کو ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود پاکستان میں سی پیک کے تحت بننے والے توانائی کے منصوبوں اور انفراسٹرکچر کے باعث کاروبار کا مجموعی ماحول بہتر ہو رہا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک میں انٹرنیٹ اکانومی کے حجم میں مزید اضافہ ہوگا۔
پی ٹی سی ایل کے سابق چیف کمرشل افسر کا کہنا ہے کہ حکومت کو بہرحال کہیں نہ کہیں سے ٹیکس تو جمع کرنے ہیں اور اس کے لیے ٹیلی کام انڈسٹری پر ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال اس کے باوجود بڑھ رہا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگ اب بھی اسے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں موبائل فون انٹرنیٹ استعمال بڑھانے کے لیے کیا کیا جائے؟
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 54 فی صد آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تھری جی اور فور جی نیٹ ورک تو موجود ہے لیکن بڑی آبادی اس کا فائدہ نہیں اٹھا رہی ہے۔
ماہرین کی رائے شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر مقامی زبانوں میں انٹرنیٹ پر مواد کو بڑھایا جائے، پرائیویسی اور دیگر سیکیورٹی فیچرز کو مضبوط کیا جائے اور صنفی عدم توازن کے معاملات کو حل کرنے کے ساتھ ڈیجیٹل شعبے کے بارے میں خواندگی بڑھائی جائے تو اس فرق کو کم کرنے کے ساتھ ڈیجیٹل معیشت کی تیزی سے ترقی میں مدد مل سکتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کی آبادی کا 20 فی صد حصہ ایسے علاقوں میں رہتا ہے جو براڈ بینڈ کوریج ہی سے باہر ہیں جس کے لیے کوریج ایریا کو بھی بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی ڈاون لوڈنگ اسپیڈ بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بہتر ہے تاہم ایران، سری لنکا اور مالدیپ کے مقابلے میں کم ہے۔
معیشت کو ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کیا ہو سکتا ہے؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے مجموعی طور پر ڈیجیٹل حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے مطابق تعلیم، صحت، زراعت اور دیگر بنیادی سماجی و معاشی شعبوں کو ڈیجیٹلائز کرنا ہوگا۔ ای-کامرس کو ترجیح جب کہ نوجوانوں اور خواتین کو اس میدان میں زیادہ با اختیار بنانے کے لیے تربیت اور سافٹ ویئرز کی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تھری جی کے بعد اب فور جی ٹیکنالوجی کا استعمال کافی تیزی سے بڑھا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ 2025 تک 12 کروڑ 90 لاکھ افراد ملک میں فور جی کا تیز انٹرنیٹ کنیکشن استعمال کر سکیں گے۔
اسی دوران فائیو جی کا استعمال کرنے والوں کی تعداد 6 فی صد تک رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد ٹو جی اور تھری جی ٹیکنالوجی کو ترک کر دے گی۔ لیکن اگر اس کا موازنہ خطے کے دوسرے ممالک سے کیا جائے تو ایک بار پھر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں فور جی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والوں کی تعداد بہرحال بھارت اور انڈونیشیا سمیت جنوبی ایشیا کی مجموعی اوسط سے بھی کم ہے۔
موبائل فون کی صنعت نے 2018 میں براہ راست اور بلواسطہ ساڑھے چار لاکھ لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کیے۔ اسی عرصے کے دوران حکومت کو اس شعبے سے تقریبا دو ارب 20 کروڑ ڈالرز ٹیکس جمع کرنے میں مدد ملی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موبائل فون آپریٹرز کی جانب سے 2010 سے 2018 کے دوران 5 ارب 30 کروڑ ڈالرز خرچ کیے گئے لیکن اس کے باوجود ان کمپنیوں کے ریونیو کی شرح خطے کے دیگر ممالک سے کم رہی حتیٰ کہ سری لنکا، ازبکستان اور بنگلہ دیش میں بھی موبائل فون آپریٹرز کے منافع کی شرح پاکستان کے مقابلے میں بہتر رہی ہے۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی سی ایل کے سابق چیف کمرشل افسر فرقان قریشی نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں گزشتہ چند سال میں ٹیکس کی مد میں اضافہ ہوا ہے۔ صارفین کی تعداد بڑھی ہے جو کہ مثبت علامات ہیں۔
ان کے مطابق ٹیلی کام کے شعبے میں اب بھی پاکستان کی پالیسی دنیا کے دیگر ممالک سے کافی بہتر ہے۔
ان کے بقول یہاں انٹرنیٹ کا استعمال نسبتاََ سستا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چار سال قبل ملک میں موبائل فون ٹاورز کی تعداد 33 ہزار تھی جو اب بڑھ کر 50 ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انفراسٹرکچر اور کوریج ایریا کافی تیزی سے بڑھا ہے۔ انٹرنیٹ بینڈ وتھ اس دوران چار گنا بڑھی ہے۔