عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے تدارک کی نگرانی کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا چار روزہ اجلاس منگل سے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں شروع ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو 'گرے لسٹ' یعنی نگرانی کی فہرست سے نکالنے کا جائزہ لیا جائے گا۔
یہ اجلاس جرمنی کی صدارت میں منعقد ہو رہا ہے، جس کے بارے میں مبصرین یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ رواں اجلاس میں پاکستان کو نگرانی کی فہرست سے نکال دیا جائے گا یا پاکستان کے اٹھائے گئے اقدامات اور پیش رفت کو سراہتے ہوئے ایک جائزہ وفد اسلام آباد بجھوانے کا فیصلے کیا جائے گا۔
ایف اے ٹی ایف کے جائزہ وفد کو بھیجنے کے فیصلے کی صورت میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اکتوبر تک انتظار کرنا ہوگا۔
پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کی سربراہی میں مالیاتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین پر مشتمل وفدایف اے ٹی ایف اجلاس میں شرکت کے لیے برلن پہنچ گیا ہے جہاں وہ تنظیم کو اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کریں گے۔ پاکستانی حکام پر امید ہیں کہ ایکشن پلان پر عملدرآمد کے باعث برلن میں ہونے والے اجلاس میں مثبت فیصلہ آئے گا۔
یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے رواں سال مارچ میں پاکستان کے اقدامات کو سراہا تھا اور اپنے اعلامیے میں کہا تھا کہ پاکستان نے 27 نکاتی ایکشن پلان میں سے 26 پر عمل کرلیا ہے۔ البتہ تنظیم نے زور دیا تھا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کی تحقیقات اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی مکمل کی جائے۔
ایف اے ٹی ایف نے آئندہ اجلاس تک پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جون 2022 تک پاکستان کو تمام سفارشات پر عمل کرنے کا وقت دیا تھا۔
پاکستان اس سال گرے لسٹ سے نکل جائے گا: جرمن سفیر
اتوار کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کے سوال پر جرمنی کے سفیر برن ہارڈ شلاگیک نے کہا کہ پاکستان کے اس سال ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلنے کی توقع ہے۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے میں پیش رفت کو سراہتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ملک اس سال گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔
جرمن سفیر نے تجویز دی کہ ایف اے ٹی ایف کی جائزہ ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کی طرف سے شرائط کو پورا کرنے، منی لانڈرنگ اور دیگر مسائل کو روکنے کے لیے کی گئی کوششوں کو دیکھا جاسکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے اسلام آباد کے ان خدشات کے ایف اے ٹی ایف میں بعض ممالک پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں، کو دور کرتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف ایک اجتماعی اور تیکنیکی فورم ہے اور کوئی ایک ملک اس کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے کہ پاکستان بارہا ان خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان سے اب 'ڈومور نہیں کہا جائے گا: یونس خان
پیرس میں مقیم ایف اے ٹی ایف کے معاملات پر نظر رکھنے والے صحافی یونس خان کہتے ہیں کہ رواں اجلاس میں پاکستان سے متعلق دو تجاویز ہیں۔ ایک یہ کہ اقدامات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اگر کسی رکن ملک کی طرف سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں تو پھر جائزہ وفد اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ دونوں صورتوں میں پاکستان کے اقدامات کو سراہا جائے گا اور ''ڈو مور'' یعنی مزید اقدامات اٹھانے کو نہیں کہا جائے گا۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ دوسری صورت میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ اکتوبر کے اجلاس تک چلا جائے گا۔
یونس خان کہتے ہیں کہ پاکستان نے حالیہ عرصے میں ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں کافی مؤثر سفارت کاری کی ہےاور وزیر تجارت سید نوید قمر کا یورپی ممالک کا دورہ اور جرمن وزیر خارجہ کا اسلام آباد پہنچنا اس معاملے میں خاصا مدد گار ثابت ہوگا۔
پاکستان کے وزیر تجارت سید نوید قمر نے گزشتہ ماہ یورپ کے اہم ملک کا دورہ کیا تھا اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستانی مؤقف کی حمایت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، ایف اے ٹی ایف کی صدارت بھی اس وقت جرمنی کے پاس ہے اور رواں اجلاس بھی برلن میں ہور ہا ہے۔
یونس خان کے بقول پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات اس وجہ سے بھی روشن ہیں کہ بھارتی میڈیا جو ماضی میں اکثر پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی خبریں چلاتا رہا ہے وہ اس بار یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے برلن اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈےکے مطابق منگل کو گرے لسٹ والے ممالک کی عمل درآمد رپورٹس کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے بعد بدھ کو بلیک لسٹ والےممالک اور جمعرات کو نئے ممالک کو گرے لسٹ میں شامل کرنے پر غور کیا جائے گا۔
بعد ازاں جمعے کو تنظیم کے صدر پریس کانفرنس کے ذریعے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے آگاہ کریں گے۔
'ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف معاہدہ دونوں ایک ساتھ ہوں گے'
دوسری جانب ماہر معیشت فرخ سلیم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی زیادہ تر سفارشات پر عمل کرلیا ہے۔ البتہ ایک نقظہ منی لانڈرنگ میں سزائیں سنانے سے متعلق ہے جہاں پاکستان کا ڈیٹا کمزور ہے۔
SEE ALSO: کوششوں کے اعتراف کے باوجود پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرارانہوں نے کہا کہ پاکستان نے حالیہ عرصے میں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے خاصی متحرک سفارت کاری کی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر تجارت نوید قمر نے اس معاملے میں سفارتی حمایت اکٹھی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے بقول اسی بنا پر انہیں لگتا ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات کافی روشن ہیں۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے 'گرے لسٹ 'سے نکلنے کا فوری اعلان نہ کیا جائے لیکن جس طرح جرمن سفیر کہہ رہے ہیں کہ اس سال پاکستان کو نکال دیا جائے گا تو اکتوبر کے اجلاس میں پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل میں بنیادی معاملہ امریکہ کی حمایت ہے جس کے بغیر پاکستان گرے لسٹ سے نہیں نکل سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک بھی ایف اے ٹی ایف میں بطور مبصر شریک ہوتے ہیں لہٰذا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اور ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے چھوٹ دونوں مثبت چیزیں ایک ساتھ ہوں گی۔
خیال رہے کہ پاکستان سال 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی نگرانی کی فہرست میں ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت یہ کہتی رہی ہے کہ 27 نکاتی ایکشن پلان پر تقریباً عمل کر لیا گیا ہے۔