پاکستان کی سول سوسائٹی، تاجر برادری، طلباء تنظیمیں اور سیاسی کارکن سیلاب سے تباہ حال اپنے ملک کے بیرونی قرضوں کی معافی کے لیے جمعرات کو ایک مہم کا آغاز کر رہے ہیں جو اپنی نوعیت کی پہلی ایسی کوشش ہے۔
مہم کےقائدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں عالمی بینک کے دفتر کے سامنے ایک احتجاجی ریلی سے اس سلسلے کا آغاز کیا جائے گا اور پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ کرتے ہوئےمظاہرین یہ مطالبہ کریں گے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے قرضے معاف کریں تاکہ حکومت ان کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کو سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی پر خرچ کرے ۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں مہم کی ایک سرگرم کارکن پروفیسر فرزانہ باری نے کہا کہ ایسا ملک جہاں ایک ’’عظیم قدرتی آفت‘‘ کی وجہ سے لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنا بھی مشکل ہو جائے،اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اسے قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی جائے ۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئےانسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس کے قرضے معاف کیے جانے چاہئیں۔
’’جس طرح ہیٹی میں زلزے کے بعد اس کو قرضوں میں ریلیف دیا گیا تھا اسی طرح پاکستان کو بھی یہ رعایت دی جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کے قرضے زیادہ ہیں لیکن عالمی امدادی اداروں کے لیے یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے‘‘
فرزانہ باری نے متنبہ کیا کہ اگر اس مشکل گھڑی میں پاکستان کو اقتصادی ریلیف فراہم نہ کیا گیا تو اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ سماجی عدم اطمینان پیدا ہو گا جس سے تشدد کے واقعات جنم لے سکتے ہیں جو ان کے مطابق پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہوں گے۔
انھوں نے بتایا کے مہم کے شرکاء نے ایسے ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ اشتراک بھی قائم کیا ہے جو اپنے قرضوں کی معافی کے لیے سر گرم ہیں جب کہ ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ انجیلینا جولی سمیت دوسری اہم شخصیات سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے تاکہ اس سلسلے میں ان کی حمایت حاصل کی جائےاور عالمی سطح پر پاکستان کے مطالبے کو تقویت حاصل ہو۔
شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کے بیرونی قرضے پچپن ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگی پر مختلف محصولات کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا اڑتالیس فیصد خرچ کرتا ہے ۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو عالمی امداد کے ساتھ نرم شرائط پر قرض بھی حاصل ہو رہا ہے جب کہ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبی پاکستان کی معیشت اب مزید قرضوں کی متحمل نہیں ہو سکتی کیوں کہ آگے چل کر اس کے پاس ان کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رہے گی ۔