کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل شیر افگن نے بتایا کہ تمام شرکاء کے ساتھ انتخابات کے مجوزہ شیڈول کا تبادلہ کیا گیا جس کے تحت الیکشن کمیشن سندھ میں یکم نومبر جبکہ پنجاب اور بلوچستان میں پانچ نومبر کو انتخابات کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اسلام آباد —
صوبوں اور مختلف سرکاری محکموں کی طرف سے رواں سال بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق دشواریوں کی نشاندہی پر پاکستان الیکشن کمیشن منگل کو بھی اس کے شیڈول کو حتمی شکل نا دے سکا۔
قائم مقام چیف الیکشن کمشنرجسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں چاروں صوبوں کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سمیت صوبائی الیکشن کمشنرز نے شرکت کی اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق امور اور مشکلات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق پاکستان پرنٹگ پریس کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت کی قلت کا مسئلہ اٹھایا گیا جبکہ بلوچستان حکومت نے بتایا کہ دسمبر میں صوبے کے بعض علاقوں میں برف باری کی صورت میں انتخابات کروانا شاید ممکن نا ہو۔
کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل شیر افگن نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ تمام شرکاء کے ساتھ انتخابات کے مجوزہ شیڈول کا تبادلہ کیا گیا جس کے تحت الیکشن کمیشن سندھ میں یکم نومبر جبکہ پنجاب اور بلوچستان میں پانچ نومبر کو انتخابات کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ حتمی تاریخوں کا اعلان صوبوں اور سرکاری محکموں کی آراء کے بعد کیا جائے گا۔
بیلٹ پیپرز کی چھپائی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بدھ کو ’’دوبارہ انہیں بلایا گیا اور کچھ اور پرنٹنگ پریسز کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ کام تقسیم کرکے بیلٹ پیپرز کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔‘‘
سپریم کورٹ نے حال ہی میں صوبوں اور الیکشن کمیشن کو سنگین نتائج کی تنبیہہ کرتے ہوئے جلد از جلد انتخابات سے متعلق اقدامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے شیڈول کے اعلان کی ہدایت کی تھی۔
صوبہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لیے بنائے گئے نئے قوانین کو اعلیٰ عدالتوں میں چلینج کیا جا چکا ہے۔ کراچی شہر کی بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز طاہر حسین مشہدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کے تحت نچلی سطح پر عوام تک اختیارات کی رسائی ممکن نہیں اور اسی بنیاد پر ان کی جماعت نے اس میں ترمیم کی غرض سے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
’’وہی پرانا انگریزوں کا نظام۔ ڈپٹی کمشنر کو لے آئے ہیں جو کہ چیئرمین ہوں گے اور پھر افسر شاہی کی حکمرانی ہوگی۔ افسر شاہی کے ذریعے حکومت اپنا اثرو رسوخ برقرار رہنا چاہتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے اس عمل سے انتخابات کے انعقاد میں کوئی تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔
’’عدالت کا اس بارے میں فیصلہ ایک دن میں آجائے گا کہ یا تو عوام کو اختیارات دو جیسا کہ ڈکٹیٹر مشرف نے کیا تھا یا نا دو۔‘‘
ادھر پنجاب میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے نئے منظور شدہ قانون کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے وہاں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو شدید تنقید کا نشانا بنایا ہے۔ تاہم نواز لیگ کے مرکزی ترجمان سینیٹر مشاہد اللہ خان کہتے ہیں۔
’’غیر جماعتی انتخابات کو اچنبے کی بات نہیں ہندوستان میں بلدیاتی انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو جماعتیں زیادہ شور مچا رہی ہیں ان کی تاریخ ہے کہ انہوں نے تو کبھی الیکشن کروائے ہی نہیں۔ پوائنٹ اسکورینگ کے لیے ان چیزوں کو استعمال نا کریں۔ یہ بہت اہم ادارہ ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کے بلدیاتی انتخابات جلد کروانے پر زور دینے کے باوجود صوبہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت اب تک اس بارے میں کوئی قانونی سازی نہیں کر سکی ہے۔
قائم مقام چیف الیکشن کمشنرجسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں چاروں صوبوں کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سمیت صوبائی الیکشن کمشنرز نے شرکت کی اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق امور اور مشکلات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق پاکستان پرنٹگ پریس کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت کی قلت کا مسئلہ اٹھایا گیا جبکہ بلوچستان حکومت نے بتایا کہ دسمبر میں صوبے کے بعض علاقوں میں برف باری کی صورت میں انتخابات کروانا شاید ممکن نا ہو۔
کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل شیر افگن نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ تمام شرکاء کے ساتھ انتخابات کے مجوزہ شیڈول کا تبادلہ کیا گیا جس کے تحت الیکشن کمیشن سندھ میں یکم نومبر جبکہ پنجاب اور بلوچستان میں پانچ نومبر کو انتخابات کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ حتمی تاریخوں کا اعلان صوبوں اور سرکاری محکموں کی آراء کے بعد کیا جائے گا۔
بیلٹ پیپرز کی چھپائی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بدھ کو ’’دوبارہ انہیں بلایا گیا اور کچھ اور پرنٹنگ پریسز کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ کام تقسیم کرکے بیلٹ پیپرز کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔‘‘
سپریم کورٹ نے حال ہی میں صوبوں اور الیکشن کمیشن کو سنگین نتائج کی تنبیہہ کرتے ہوئے جلد از جلد انتخابات سے متعلق اقدامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے شیڈول کے اعلان کی ہدایت کی تھی۔
صوبہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لیے بنائے گئے نئے قوانین کو اعلیٰ عدالتوں میں چلینج کیا جا چکا ہے۔ کراچی شہر کی بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز طاہر حسین مشہدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کے تحت نچلی سطح پر عوام تک اختیارات کی رسائی ممکن نہیں اور اسی بنیاد پر ان کی جماعت نے اس میں ترمیم کی غرض سے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
’’وہی پرانا انگریزوں کا نظام۔ ڈپٹی کمشنر کو لے آئے ہیں جو کہ چیئرمین ہوں گے اور پھر افسر شاہی کی حکمرانی ہوگی۔ افسر شاہی کے ذریعے حکومت اپنا اثرو رسوخ برقرار رہنا چاہتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے اس عمل سے انتخابات کے انعقاد میں کوئی تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔
’’عدالت کا اس بارے میں فیصلہ ایک دن میں آجائے گا کہ یا تو عوام کو اختیارات دو جیسا کہ ڈکٹیٹر مشرف نے کیا تھا یا نا دو۔‘‘
ادھر پنجاب میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے نئے منظور شدہ قانون کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے وہاں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو شدید تنقید کا نشانا بنایا ہے۔ تاہم نواز لیگ کے مرکزی ترجمان سینیٹر مشاہد اللہ خان کہتے ہیں۔
’’غیر جماعتی انتخابات کو اچنبے کی بات نہیں ہندوستان میں بلدیاتی انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو جماعتیں زیادہ شور مچا رہی ہیں ان کی تاریخ ہے کہ انہوں نے تو کبھی الیکشن کروائے ہی نہیں۔ پوائنٹ اسکورینگ کے لیے ان چیزوں کو استعمال نا کریں۔ یہ بہت اہم ادارہ ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کے بلدیاتی انتخابات جلد کروانے پر زور دینے کے باوجود صوبہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت اب تک اس بارے میں کوئی قانونی سازی نہیں کر سکی ہے۔