آم کا بیرونِ ملک سفر کرونا کی نذر

فائل فوٹو

آم کی 19 لاکھ میٹرک ٹن مجموعی پیداوار کے ساتھ پاکستان دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔ خوشبو، رنگ، ذائقہ اور مٹھاس سے بھرپور ہونے کی وجہ سے پاکستانی آموں کو دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھوں لیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس پاکستان نے ایک لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن آم برآمد کیا تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان سے آم متحدہ عرب امارات، ایران، افغانستان، امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں 55 فی صد بحری، 20 فی صد فضائی اور 25 فی صد زمینی راستوں سے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات پاکستانی آموں کا سب سے بڑا خریدار ہے جب کہ کل برآمد کا لگ بھگ 20 فی صد ایران جاتا ہے۔

رواں برس کرونا وبا کی وجہ سے حالات یکسر مختلف ہیں اور آم کی ایکسپورٹ کو سرحدوں کی بندش، پروازوں میں کمی اور فریٹ میں اضافے کی وجہ سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔

پاکستان کے وفاق ہائے ایوان صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین شیخ امتیاز حسین کہتے ہیں کہ گزشتہ برس آموں کی ریکارڈ برآمد سے ملک کو 90 سے 95 ملین ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل ہوا تھا۔ تاہم اس سال حالات بہت پیچیدہ ہیں اور آموں کی برآمد میں 50 فی صد تک کمی کا خدشہ ہے۔

شیخ امتیاز حسین نے مزید بتایا کہ کرونا کی وبا اور اس کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی کے باعث اس سال آم کی ایکسپورٹ 70 سے 75 میٹرک ٹن تک رہنے کا امکان ہے جس سے نہ صرف ملکی زرِ مبادلہ میں کمی ہوگی بلکہ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔

فائل فوٹو

آم کی برآمدات میں کمی کی وجوہات

امتیاز حسین کہتے ہیں کرونا وبا کی وجہ سے فضائی، بحری اور زمینی راستے بند ہیں۔ اور جن چند ممالک کے لیے پروازیں دستیاب ہیں ان کے فریٹ ریٹ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی منڈی کساد بازاری کا شکار ہے اور کئی مقامات پر مکمل لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے مارکیٹیں بھی بند ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یورپی مارکیٹ کے لیے جو فریٹ گزشتہ برس 200 روپے کلو تھا اب بڑھ کر 550 روپے فی کلو ہوگیا ہے۔ اسی طرح خلیجی ممالک کے لیے فریٹ ریٹ 90 روپے سے بڑھ کر 250 روپے فی کلو ہوگئے ہیں اور خریدار بھی نہیں ہیں۔

ایران و افغانستان کی سرحد بند ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امتیاز حسین شیخ کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ممالک پاکستانی آموں کی بڑی مارکیٹ ہیں۔ لیکن سرحد بند ہونے کی وجہ سے برآمد کنندگان کی 400 ملین روپے کی کنسائنمنٹس خراب ہو رہی ہیں۔ انہوں نے گلہ کیا کہ حکومت نے مارک اپ میں کمی کے علاوہ ایکسپورٹرز کی کسی قسم کی مدد نہیں کی۔

ایران اور افغانستان سرحد پر کیا صورت حال ہے؟

حالیہ دنوں میں حکومت اور آم کے ایکسپورٹرز کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف وحید احمد کے مطابق ایران اور افغانستان کو زمینی راستے سے آموں کی برآمد شروع ہوگئی ہے۔

'آم ہوں، میٹھے ہوں اور ڈھیر سارے ہوں'

انہوں نے بتایا کہ قومی ایئر لائن نے آموں کے ایکسپورٹرز کو مانچسٹر، فرینکفرٹ اور لندن کے لیے رعایتی فریٹ اور بہتر سہولیات کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد فضائی راستے سے یورپی ممالک کو آموں کی ایکسپورٹ جلد بحال ہونے کی توقع ہے۔

تاہم وحید احمد کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باوجود بھی رواں برس پاکستان سے آم کی برآمدات زیادہ سے زیادہ 80 ہزار میٹرک ٹن تک ہی رہے گی۔

آموں کی مجموعی پیداوار میں مسلسل پانچ برسوں سے کمی

پاکستان میں آم کی مجموعی پیداوار میں مسلسل پانچ برسوں سے کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔

اس بارے میں فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے وحید احمد کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مقامی باغات کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ موسم میں تبدیلی کے باعث آم کی فصل تیار ہونے میں دو ہفتے کی تاخیر ہو رہی ہے اور آم پہلے کے مقابلے میں اب مختلف قسم کی بیماریوں کا جلد شکار ہوکر خراب ہو جاتے ہیں۔

ان کے بقول ان عوامل کی وجہ سے رواں برس 51 فی صد تک آم کی پیداوار کم ہوئی ہے۔

مجموعی پیداوار میں کمی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

وحید احمد کے مطابق موسمی تغیرات کے آم کی فصل پر مضر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ملک میں تحقیقی کام کا فقدان ہے۔ ان کے بقول ایک جامع ریسرچ کے ذریعے پالیسی مرتب کر کے کاشت کاروں کی رہنمائی کی جائے۔

فائل فوٹو

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی تنظیم نے وژن 2023 کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس شعبے میں تحقیق اور ڈیولپمنٹ کے لیے ایک روڈ میپ دیا ہے جس پر عمل کرکے زراعت کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

آم کے امپورٹرز بھی نا خوش

اس صورتِ حال سے آم کے درآمد کنندگان بھی خوش نہیں۔ افضل احمد اس وقت متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور پاکستان سے آم امپورٹ کرتے ہیں۔ رواں برس بڑھتے ہوئے فریٹ ریٹ پر وہ تشویش کا شکار ہیں۔

وہ کہتے ہیں ایک طرف فریٹ میں اضافہ ہوگیا ہے تو دوسری طرف افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدیں بند ہونے اور دیگر ممالک کے لیے محدود پروازوں کے باعث پاکستانی آم اس وقت زیادہ تر متحدہ عرب امارات میں ہی برآمد کیا جا رہا ہے جس کے باعث امارات میں آم کی قیمت بہت کم ہوگئی ہے۔ ان کے بقول ایسے میں ایک امپورٹر اضافی فریٹ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔

پیداواری لاگت میں اضافے سے کاشت کار پریشان

سندھ کے علاقے ٹنڈو الہٰیار کے زمین دار محمد بخش شاکی ہیں کہ پانی کی کمی اور موسمی تغیرات آم کی پیداوار میں کمی کا باعث بن رہے ہیں لیکن کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں۔

ان کے بقول لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور بھی دستیاب نہیں اور جو ملے انہوں نے مزدوری بڑھا دی۔ ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے مزید اخراجات برداشت کرنا پڑے جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا۔

آموں کو درخت سے اتارنا اور اس کی درجہ بندی کرکے لکڑی یا پلاسٹک کی پیٹیوں میں حفاظت سے رکھنا ایک ہنر ہے اور اس کام کے ماہر بیشتر مزدور مارچ میں جنوبی پنجاب سے سندھ کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مزدور عبدالغفار نے ذرائع آمد و رفت بند ہونے کی وجہ سے ٹرکوں اور نجی گاڑیوں میں چھپ چھپا کر بہ مشکل سندھ پہنچنے کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ اس طریقے سے دگنا کرایہ خرچ کے منزل تک پہنچے ہیں اس لیے مزدوری بھی 15 ہزار سے بڑھا کر 20 ہزار لے رہے ہیں۔

فائل فوٹو

عبدالغفار لاک ڈاؤن کے باعث جیسے تیسے مزدوری پر پہنچ گئے لیکن اُن کے دوست حاکم اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔ پورا سال مزدوری کا انتظار کرنے کے بعد سیزن پر کھیتوں تک نہ پہنچنے پر ملال کا اظہار کرتے ہوئے حاکم نے بتایا کہ ناکام لوٹا تو گھر پر بیوی اور بچوں کے مایوس چہرے میرا استقبال کررہے تھے۔ جمع پونجی بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب کھائیں تو کیا کھائیں؟ ٹرانسپورٹ بحال ہو تو روزی روٹی شروع ہو۔

مجموعی پیداوار اور برآمدات میں کمی سے بے روزگاری میں اضافہ

آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی سے بے روزگاری میں اضافے کے بھی خدشات منڈلا رہے ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین شیخ امتیاز حسین کے مطابق آم کی فصل تیار ہونے کے بعد اسے درخت سے اتارنے، پیکنگ، نقل و حمل، ٹیسٹنگ، پروسیسنگ، کیمیکل واشنگ اور برآمد کرنے کے مراحل سے 10 سے 15 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔

ان کے بقول مجموعی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی سے لگ بھگ پانچ لاکھ سے زائد افراد کا روزگار یا تو ختم ہوگیا ہے یا شدید خطرے سے دوچار ہے۔

ایکسپورٹ کوالٹی آموں کی مقامی مارکیٹ میں فروخت

برآمدات زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ کوالٹی آم اس بار مقامی بازاروں میں دستیاب ہیں اور ان کی قیمت بھی مناسب ہے۔ تاہم اندرونِ ملک لاک ڈاؤن اور بازاروں کے مختصر اوقات کار آم کی آزادانہ فروخت میں آ ڑے آرہے ہیں۔

اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھانے کے لیے کئی نوجوان ایکسپورٹرز اور دیگر افراد مقامی سطح پر آم کی فروخت کے لیے 'ای کامرس' کو آزما رہے ہیں اور ویب سائٹس اور فیس بک پیجز کے ذریعے صارفین کو گھر بیٹھے آم فراہم کر رہے ہیں۔

فائل فوٹو

سید ذیشان احمد میڈیا سے وابستہ تھے لیکن چند ماہ قبل بے روزگار ہوگئے تھے۔ انہوں نے عید پر ملبوسات اور دیگر اشیا کی ہوم ڈلیوری کے لیے آن لائن اسٹور بنایا جو کامیاب رہا۔ اب وہ ایکسپورٹ کوالٹی آم کی ہوم ڈلیوری سروس دے رہے ہیں۔

ان کے بقول لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ انہیں چار رائیڈرز رکھنے پڑے ہیں جب کہ ان کے دو بھائی بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

ذیشان نے بتایا کہ روزگار چلے جانے کے بعد وہ بہت پریشان تھے۔ آن لائن اسٹور بنایا اور کام شروع کیا تو عید کا سیزن توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا۔ اب آن لائن آموں کی فروخت شروع کی ہے اور پہلے ہی ماہ چھ لوگوں کو تنخواہ دینے اور اخراجات کے بعد بھی انہیں 70 سے 75 ہزار روپے بچ گئے ہیں۔

علی احمد بھی ان نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو پہلے ایکسپورٹ کوالٹی آم فروخت کیا کرتے تھے۔ وبا کے دوران انہوں نے 'فروٹ والا' کے نام سے فیس بک پیج بنایا اور اب یہی ان کا دفتر بھی ہے اور دکان بھی۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی سیزن شروع ہوا ہے اور ابتدا ہی میں انہیں اچھا بزنس مل رہا ہے۔ دس، دس کلو کے آم کے پیکٹس بنائے ہیں اور فی پیکٹ قیمت 850 روپے ہے۔ ان کے بقول ایک دن میں پانچ من تک آم فروخت ہو جاتا ہے۔