آموں کا ذکر ہو اور غالب کا تذکرہ نہ ہو، ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ نہ جانے آم اور غالب سے جڑے کتنے قصے مشہور ہیں۔ غالب کو آموں سے عشق تھا اور ہمیں ان کی شاعری اور آم، دونوں سے۔
مشرقی ثقافت آموں کی چاہت سے بھری پڑی ہے۔ گئے زمانے کی بات ہے کہ آم کا موسم کیا شروع ہوتا، ہماری نانی کی لمبی سی چھت کٹی ہوئی کیریوں (کچے آموں) سے بھر جاتی تھی۔
ذہن کے گوشوں پر زور ڈالتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ نانی اور خالہ لکڑی کی ایک موٹی سی پٹی پر جڑے سروتے نما بڑے سے اوزار کی مدد سے کیری کو چار حصوں میں کاٹتیں اور جب ڈھیر ساری کیریاں کٹ جاتیں، تو انہیں گھر کی چھت پر پھیلی دھوپ میں سکھانے کے لیے ایک چارپائی پر چادر ڈال کر صبح سے شام تک کے لیے رکھ دیا جاتا۔
ہفتہ نہیں گزرتا تھا کہ چینی مٹی کے بنے سفید اور زرد رنگ کے مرتبانوں میں ان کا اچار ڈال کر رکھ دیا جاتا۔ اس اچار کا کچھ حصہ ہماری اماں کو بھجوا دیا جاتا، کچھ نانی اپنے گھر رکھ لیتیں اور سال چھ مہینے تک یہ اچار مزے لے لے کر ہر کھانے کے ساتھ کھایا جاتا۔
کچے آم یا کیری کے اچار کی اقسام اور پکوانوں کے نام گنیں تو گنتی انگلی کے پوروں سے آگے نکل جاتی ہے۔
آم کا اچار آج بھی پورے سال کھایا جاتا ہے۔ اس اچار کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک اچار تیل میں اور دوسرا پانی سے تیار کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے سرکہ ڈال کر بھی تیار کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب کچے آم کا اچار کھیتوں میں کھلے آسمان تلے کام کرنے والے کاشت کاروں کے دوپہر کے کھانے کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔ وہ صرف اچار کے ساتھ روٹی کھا کر بھی مطمئن رہتے تھے۔
کچے آموں سے بنے اچار کی سب سے مشہور قسم مکس اچار ہے۔ یہ مکس اچار پہلے مرتبانوں میں ڈلا کرتا تھا۔ اب جب سے بنا بنایا اچار مارکیٹ میں ملنے لگا ہے، بات پلاسٹک کے ڈبوں، بوتلوں اور پیکٹوں تک جا پہنچی ہے۔
سہل پسندی نے گھر میں اچار ڈالنے کا رواج ختم کر دیا ہے۔ اب یہ سب کو جھنجھٹ لگتا ہے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ گھر میں اپنے ہاتھ سے خود اچار تیار کرے۔ اس لیے وہ ذائقے بھی ناپید ہوگئے جو گزرے زمانوں میں اماں، نانی یا دادی کے ہاتھوں سے بنے اچار میں ہوا کرتے تھے۔
میرے بچن کی دھندلی دھندلی سی یادوں میں ہے کہ کیری جب آم میں بدل جاتی، تو ہماری دادی پودینہ ڈال کر اس کی میٹھی چٹنی بنالیتی تھیں۔ اس چٹنی میں یقیناً اور بھی بہت سے لوازمات ہوتے ہوں گے مگر وہ مجھے یاد نہیں۔ آم اور پودینے کی یہ چٹنی بنانے میں دادی کو ملکہ حاصل تھا۔
کیری کا اچار، سرکے میں ڈوبے پیاز کے گول گول چھلے اور بیسن کی روغنی روٹی، نمکین لسی کے ساتھ کھانے میں جو مزہ تھا، الفاظ وہ بیان نہیں کرسکتے۔
ہماری اماں، دادی کی تابع دار اور ہر حکم پر "آمنا و صدقنا" کہنے والوں میں سے تھیں۔ انہوں نے نہ صرف دادی سے خشک پودینے اور آم کی کھٹی میٹھی چٹنی بنانا سیکھی۔ بلکہ کیری کو لکڑیوں کی دھیمی دھیمی آنچ پر اس کا چھلکا جلنے کے باعث 'داغ دار' ہونے تک اسے بھوننے کا ہنر بھی سیکھا۔
ہلکی آنچ پر بھنی کیری کو شیشے کے گلاس میں نمک کے پانی میں ڈال کر بچوں سمیت گھر کے تمام مردوں اور عورتوں کو دے دیا جاتا۔ جو کیری کے گودے کو چمچے کی مدد سے ہلکے ہلکے ملتے۔ جب یہ گودا پانی کو گاڑھا کردیتا تو اسے شوق سے پیا جاتا۔
دادی کا نسخہ تھا یا کچھ اور کہ وہ اسے لو کا 'تریاق' کہا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر سے باہر کام کے لیے جانے والے تمام مردوں کو لو سے بچانے کے لیے یہ شربت کسی قیمتی شے سے کم نہیں۔ شاید یہ اسی کی طاقت تھی کہ صحن اور اس کے دریچوں میں پھیلی دوپہر کی سخت دھوپ بھی کبھی ناگوار نہیں گزری اور نہ ہی بچپن میں ہمیں کبھی لو لگی۔
پھر جب ساون کی گھٹاؤں میں جھومتے گھنے درختوں سے ٹوٹ کر گرنے والے آم بازار میں بکنے آتے، تو قیمتوں اور گاہکوں دونوں میں اضافہ ہو جاتا۔
گھر کے مردوں کو دادی کی ہدایت تھی کہ درختوں کے سائے لمبے ہونے سے قبل گھر لوٹ آئیں۔ کس کی مجال تھی کہ اس ہدایت کی خلاف ورزی کا سوچ بھی سکتا۔
وہ شامیں چائے کی چسکیوں میں نہیں بلکہ گھر کے صحن میں رکھی چار پائیوں پر گپ شپ کرتے گزرا کرتی تھیں۔ آم کا موسم ہوتا تو شام کے اندھیرے سے پہلے ہی چارپائی کے پاس بڑا سا ٹب برف کے یخ پانی سے بھر کر رکھ دیا جاتا تھا جن میں درجنوں آم ڈال دیے جاتے تھے۔
آموں کو ٹھنڈا ہونے کے بعد تمام گھر والے چارپائی کے گرد بیٹھ کر باری باری آم یخ پانی سے نکال کر اسے دونوں ہاتھوں سے دبا دبا کر نرم کرتے اور مزے لے لے کر چوستے۔ کچھ لوگ اس طرح آم کھاتا دیکھ کر ناک بھوں بھی چڑھایا کرتے تھے۔ لیکن ابا کہا کرتے تھے کہ پائے اور آم بدتمیزی سے نہ کھائے جائیں تو ایک سے 'پیٹ' اور دوسرے سے 'دل' نہیں بھرتا۔
آم صدیوں سے برِ صغیر والوں کی مرغوب غذا رہا ہے۔ تبھی تو اب تک اس کی پھلوں پر بادشاہت قائم ہے۔ آم کا اسکواش ہو یا شیک، جوس ہو یا اس سے بنی جدید زمانے کی سافٹ ڈرنکس، ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اس کا رسیا ہے۔
زمانے نے کروٹ لی تو مینگو آئس کریم، مینگو فالودہ اور مینگو گولا گنڈا نکل آیا۔ جب آموں کا موسم نہیں بھی ہوتا تو آم فلیور اور 'مینگو ایسنس' آم کی یاد تازہ کراتا رہتا ہے۔
اب پھر آم کا موسم لوٹ آیا ہے اور ساتھ ہی پودینے والی میٹھی چٹنی کی یاد بھی۔۔۔