نورین شمس
کراچی میں رہتے ہوئے گرمی کی آمد کا پتا تب چلتا ہے جب دودھ دہی کی دوکانوں میں رش اور لوُ کے چلتے گرم ہوا کے تھپیٹرے یا جگہ جگہ ٹھیلوں میں رکھا پھلوں کا بادشاہ اپنے حسن اور ایک میٹھی خوشبو لیے اتراتا نظر آتا ہے۔۔۔ تب لگتا ہے کہ گرمی کی آمد پوری آب و تاب کے ساتھ ہو چکی ہے۔
جہاں گرمی سے خفگی ہوتی ہے وہاں آم کی چاہت گرمی کو صرف اس تحفہِ مٹھاس کے بدولت کچھ برداشت کے قابل لگتی ہے۔
مگر اس سال گرمی کے موسم میں کراچی کی ٹھنڈی ہوائیں شاموں میں میسر ہوئیں نہ ہی وہ ٹھیلوں میں رکھے ہرے، پیلے، رسیلے آم دیکھنے کو ملے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سال سے امریکہ کی ریاست ایریزونا کے شہر ٖٖفیونکس میں مقیم ہوں۔
فیونکس میں گرمی سے واسطہ تو سالہا سال رہا، مگر آم کی سوغات دیکھنے کو نہیں ملی۔ دل کی للچاہٹ اور آموں سے بھلے غالب جیسی رغبت نہ سہی مگر اتنی شوقین ضرور ہوں کہ آم کا موسم ہو اور آم نہ کھاؤں تو یہ بھی کیا بات ہوئی؟
یہی سوچ کر آم لینے تین بڑے گروسری اسٹورز کا رخ کیا۔ کئی شیلف دیکھنے کے بعد بھی کہیں پھلوں کا بادشاہ نظر نہیں آیا۔ اسٹور میں کام کرنے والے ایک شخص سے آموں کے بارے میں پوچھا تو جھٹ سے اس نے ایک شیلف پر رکھے کچھ گول لال اور ہرے رنگ کی طرف اشارے سے بتایا کہ یہ ہیں آم۔
پہلے مجھے لگا کہ شاید میری بات انھیں سمجھ نہیں آئی اور کسی لال ہری سبزی کو یہ آم بتا رہے ہیں۔ مگر اس شیلف پر لکھا Mangoes اس شخص کی بات کو درست ثابت کر رہے تھے۔
کافی دیر حیران کن رہنے کے بعد میں نے ان ہرے اور لال آموں کو ہاتھ میں لے کر تصدیق کرنی چاہی۔ ویسے تو آم اور قسموں کو جاننے کی کوئی ماہرانہ صلاحیت نہیں مگر اتنا پتا تھا کہ خوش ذائقہ، پیلے اور بیضوی شکل کے آم سندھڑی کہلاتے ہیں، جو سندھ کی مشہور سوغات ہے اور وہیں پر اس کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ دوسرا لنگڑا آم جو کہ دکھنے میں تو سبز رنگ کا ہوتا ہے مگر اندر نارنجی اور اسکی پہچان اسکی رسیلی خوشبو اور ریشے دار گودا ہوتا ہے۔
یہ آم جو امریکی اسٹور میں میرے سامنے تھا وہ کچھ لال، سبز رنگ کا تو تھا مگر کوئی خوشبو آم والی نہیں تھی۔
شیلف کی ایک سائیڈ پر لکھا تھا Hawaiian Mangoes. تو سمجھ آیا کہ شاید وہاں پر آم اسی رنگ کے پائے جاتے ہونگے۔
یہ آم دل اور آنکھ کو ذرا نہ بھائے۔ تین بڑے اسٹور دیکھ لیے، مگر وہ پیلے آم نہ ملے۔ فیونکس میں رہنے والے کچھ پاکستانیوں اور بھارتیوں سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ پھر ان سے پتا چلا کہ یہاں پر دیسی کمیونیٹی میکسیکن آموں پر انحصار کرتی ہے جنکا رنگ اور ذائقہ کچھ کچھ پاکستانی اور انڈین آموں جیسا ہوتا ہے۔
ایریزونا میکسیکو کی سرحد ملنے کی وجہ سے یہاں پر میکسیکن اور ہسپانوی زبان بولنے والے زیادہ بستے ہیں۔ ان کے بڑے گروسری اسٹورز بھی ہیں جہاں سالسا چپ، ٹاکوز غرض کے ہر قسم کے میکسکن کھانے، مصالحے اور چیزیں ملتی ہیں۔ مگر مجھے تو میکسیکن آموں کی تلاش تھی۔ پھلوں کی شیلف پر میری متلاشی آنکھیں آموں کو ڈھونڈھ رہی تھیں اور وہیں ایک جگہ پر چھوٹے، پیلے رنگ کے آموں پر نظر پڑی جیسے چھوٹے چھوٹے انورٹول کب سے میری راہ دیکھ رہے ہوں۔ میں نے ان کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور انکی خوشبو سے لطف اندوز ہونا چاہا۔ ستم ظریفی یہ کہ رنگ تو تھا مگر وہ خوشبو نہیں تھی۔
پھر کچھ نہ سوچا اور بس چار پانچ آم اٹھائے اور انکے پیسے دیے اور گھر آگئی۔ کووڈ 19 کو مدِنظر رکھتے ہوئے تمام ایس او پیز پر عمل کرکے آم دھو کر چھری سے آم پر دو، چار وار کیے او آ م کا ٹکڑا اپنے منہ میں رکھا؛ خوشبو تو پہلے بھی نہیں تھی، مگر ان میکسیکن آموں میں مٹھاس بھی نہیں تھی۔
اتنی محنت کے بعد بھی آم کھا کر وہ راحت نہ ملی تو افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔ اسی ملی جلی کیفیت میں اپنے پاکستانی دوستوں کو کال ملائی اور غصہ کا اظہار کیا کہ یہ کیسا مذاق ہے؟ یہ آم ہے کہ پیلی کیری۔ دوستوں نے پھر تفصیلات بتائیں کہ میکسیکو کا آم ترش ذائقہ ہوتا ہے۔ کچھ دنوں پانی میں رکھ کر اسے بھول جاؤ جب پک جائے گا پھر کھانا۔ مجھے یہ بات کچھ سمجھ آئی۔ اب وہ آم اسی طرح پانی میں رکھے ہوئے ہیں۔ میں انکے پکنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ مگر یہ آم کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہ سبز لال آم اور ترش ذائقہ آم یہاں اور کہاں کہاں مشہور ہیں اسکی کھوج لگانا شروع کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آم کی مقبولیت یا پیداوار صرف ایشیا تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ پھل افریقہ میں بھی پیدا ہوتا ہے۔
اییریزونا کی یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے دنیا کے کئی ملکوں کی طرف سے آئے ہوئے دوست سے آم کے بارے میں دریافت کیا، کچھ امریکیوں، لاطینی اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والوں نے آموں کے بارے میں دلچسپ باتیں شیئر کیں اور آئسولیشن کے زمانے میں اس سے اچھا ٹائم پاس کیا ہوسکتا تھا کہ آموں پر تحقیق کی جائے۔
آم پاکستان، ہندوستان اور فلپائن کا قومی پھل ہے۔ امریکی سپر مارکیٹ میں آم دنیا کے ہر کونے سے آتے ہیں اور صرف گرمیوں میں ہی نہیں بلکہ سال کی ابتدا سے ہی آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ آم پیرو سے آتے ہیں۔ افریقہ سے اور سال کے آخر آخر تک اسرائیل، مصر اور برازیل سے بھی آموں کی ترسیل ہوتی رہتی ہے۔
امریکہ میں ویسے تو پاکستانی آموں کی زبردست مارکیٹ ہے۔ مگر 50 لاکھ ٹن میں سے 95 فیصد آم ہمسایہ ملک میکسیکو، مجموعہ جزائر ہیٹی اور برازیل سمیت جنوبی امریکہ کے کئی ممالک سے سال بھر آتے رہتے ہیں، کیونکہ وہاں مختلف ممالک میں سال کے مختلف حصوں میں آم لگتے ہیں۔
مختلف ممالک کے مختلف آم بعض رس دار اور میٹھے ہوتے ہیں تو بعض ترش، بعض قدرے گرم اور یہ سب بڑے شہروں کے سپر مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔
آم کی کاشت زیادہ تر ٹھنڈ سے آزاد، گرم آب و ہوا یا جہاں ہوا میں نمی زیادہ ہو وہاں پر کی جاتی ہے۔
پندرہویں صدی میں یورپی ممالک نے جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی کالونیاں قائم کیں۔ ان میں پرتگالی اور ہسپانوی بھی شامل تھے اور وہ بہت جلد آم کے ذائقے کے گرویدہ ہو گئے اور پھر 17ویں صدی میں آم امریکی نو آبادیات میں نظر آنے لگا۔ آج دنیا کے ہر گوشے میں آم پیدا ہوتا ہے، کیربیئن کے جزائر سے لے کر برازیل اور یہاں تک کہ پیرو میں بھی پایا جاتا ہے۔ اسپین واحد یورپی ملک ہے جہاں بڑے پیمانے پر مالقہ صوبے میں آموں کی کاشت ہوتی ہے۔
ایشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، ملائیشیا، سری لنکا، مصر، امریکہ، اسرائیل، فلوریڈا، برازیل اور ویسٹ انڈیز میں بھی آم کی کاشت کی جاتی ہے۔
پاکستان میں وادی مہران کی خوبصورت سرزمین اور سندھ کا چوتھا بڑا شہر میرپور خاص اپنی تہذیب، ثقافت اور آم کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
آموں کی پوری دنیا کی آدھی کاشت انڈیا میں ہوتی ہے، جبکہ چین آم کی کاشت کے حوالے سے دنیا کے دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
جب سترہویں صدی میں امریکی کالونیوں میں آم پہلی بار درآمد کیا گیا تو فریج نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اچار میں ڈالنا پڑا۔ آم کا استعمال اچار کی صورت میں پاکستان میں کافی مقبول ہے اور دال چاول، سبزی کے ساتھ یہ اچار مزہ دوبالا کر دیتا ہے۔ ہم پاکستانی اسے مینگو شیک، مینگو لسی اور ٹکڑے کر کے کھانا پسند کرتے ہیں۔ مگر امریکہ میں رہنے والے لوگ جن کا تعلق میکسیکو سے ہے وہ آم کچھ الگ ہی طریقے سے نوش فرماتے ہیں۔
یہ پہلے آم جس بھی انداز میں بھی موزوں نظر آئے اس میں کاٹ لیتے ہیں۔ پھر ایک لیموں پورے آم پر نچوڑ کر آم میں مرچ پاوڈر، ایک چوٹکی یا دو نمک چھڑک کر پھر کھانا پسند کرتے ہیں۔ یہ کھٹا، مصالحے دار آم میکسیکن کی مقبول ترین اسٹریٹ فوڈ میں سے ہے۔ یہ مصالحے اور کھٹے میکسیکن آم کا پڑھ کر تو میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے لائے ہوئے آم جو اب بھی پانی میں پڑے ہیں کب پکیں گے اور کب میں ان سے لطف اندوز ہو سکوں گی؟