گزشتہ سال 13 اپریل کو خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلباء نے توہین مذہب کے الزام میں اسی یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے دوران مشال خان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے نازیبا یا توہین آمیز کلمات کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔
واقعہ کے عینی شاہد جس نے سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی استدعا کی ہے، بتایا کہ جس دن یہ واقعہ پیش آیا، اس دن صبح سے ہی مشال کے کلاس فیلوز اکھٹے ہوئے تھے اور وہ لوگوں میں اشتعال پھیلا رہے تھے۔ جب مشال کا ایک دوست عبداللہ وہاں آیا تو مشتعل نوجوانوں انہوں نے گھیر لیا جس پر عبداللہ نے کرسی پر کھڑے ہو کر کلمہ پڑھا اور کہا کہ میں توصحیح مسلمان ہوں آپ کیوں ہمارے خلاف ہیں۔
اتنے میں کچھ اساتذہ بھی وہاں پر آ گئے جن میں ضیاء اللہ ہمدرد بھی تھے۔ وہ ان سب کو وہاں سے چیئرمین آفس لے گئے جہاں پر ہر کوئی الزام تو لگا رہا تھا مگر ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں تھا اور ہر ایک کا الزام بھی ایک دوسرے سے مختلف تھا۔
عینی شاہد نے بتایا اس وقت تک صورت حال اتنی خراب نہیں ہوئی تھی کہ معاملہ مشال کے قتل تک پہنچ جاتا، اس لیے میں اپنے ہوسٹل میں چلا گیا ۔ وہاں مجھے دوستوں سے پتا چلا کہ مشال کو قتل کردیا ہے اور پھر جب میں نے قتل کی ویڈیو میں یہ دیکھا کہ اس کی کس طرح بے حرمتی کی گئی تو پھر اس کے بعد مجھے کئی دن تک نیند نہیں آ سکی تھی۔
آج ایک سال بعد بھی ہم اس کیس پر کھل کر بات نہیں کرسکتے۔ اب حالات پہلے کے مقابلے میں زیادہ تشویش ناک ہو چکے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ممکن ہے ہماری کوئی بات انہیں اتنی بری لگ جائے کہ وہ جان لینے پر تک جائیں۔
قتل کے الزام میں 57 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عبدالولی خان یونیورسٹی سے تھا۔ ان میں یونیورسٹی کے ملازمین بھی شامل تھے۔ ایبٹ آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج فضل سبحان خان نے مقدمے کی سماعت کے بعد 30 جنوری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
7 فروری کو کیس کا فیصلہ سنایا گیا جس میں مرکزی ملزم عمران علی کو سزائے موت، پانچ ملزمان کو 25 سال قید اور 25 ملزمان کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ 26 ملزمان کو بری کردیا گیا۔ چار سال قید کی سزا پانے والے ملزمان کو بھی بعد میں ضمانت پر رہائی مل گئی۔
مشال قتل ہوگیا مگر اس کے خاندان والے اور اس کے یونیورسٹی کے کئی ساتھی آج بھی خوف کے عالم میں جی رہے ہیں۔ مشال کے والد اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ۔’ مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا اب واپس نہیں آسکتا مگر میں قوم کے بچوں کے لئے یہ جنگ لڑ رہا ہوں تاکہ کوئی کسی باپ کے جوان بیٹے کو قتل نہ کرے، یہ روز روز کا ڈراما اب ختم ہونا چاہے۔ کبھی آرمی پبلک سکول میں، اور کبھی باچا خان یونیورسٹی میں ہمارے بچوں کو قتل کیا جا تا ہے‘۔
پشاور پریس کلب میں مشال خان کی برسی کے حوالے سے خواتین اور سول سوسائٹی نے ایک تعزیتی ریفرنس پیش کیا جس میں مشال خان کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔
سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت سزا دی جائے تو اس کی ضمانت نہیں ہوتی، مگر مشال قتل کیس میں 26 ملزمان کو جنہیں چار سال قید کی سزا ہوئی تھی، عدالت نے انہیں رہا کر دیا۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی بشریٰ گوہر نے کہا کہ جن لوگوں کو عدالت نے رہا کیا ان کا موٹر وے پر استقبال ہوا جہاں انہوں نے اعلانیہ طور پر نہ صرف اپنے جرم کا إقرار کیا آئندہ بھی اس طرح کے جرائم کے عزم کا اظہار تھی کیا۔
انہوں نے خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مشال خان کے والد کو اس کیس کی پیروی کے لئے چار وکلاء کا پینل دینے کا اعلان کیا گیا تھا مگر ایک وکیل کی فیس کا وعدہ بھی ابھی تک پورا نہیں کیا گیا اور جامعہ حقانیہ کانام لئے بغیر کہا کہ حکومت نے ایک ایسے ادارے کو کروڑوں روپے دیے جس کا سربراہ خود کا طالبان کا استاد کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ دہشتگردی کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہے۔
گلالئی إسماعيل نے کہا کہ کوئی بھی ماں اپنے بچے کو سکول یا یونیورسٹی قتل ہونے کے لئے نہیں بھیجتی اور نہ ہی کوئی ماں اسے قاتل بنانا چاہتی ہے، یہ ریاستی پالیسیاں ہیں جس کا نقصان پورے معاشرے کو ہو رہا ہے۔