اہم قومی معاملات پر رائے عامہ کی تشکیل میں میڈیا کا کردار

اہم قومی معاملات پر رائے عامہ کی تشکیل میں میڈیا کا کردار

سیمینار میں شریک سینئیر صحافی ضیا الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کسی بھی معاملے پر میڈیا کو بحث سے روکا نہیں جا سکتا کیوں کہ مذاکرے کے بعد عوام کو اس بات کا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے خود قائم کرسکیں۔ اُنھوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں جس تیز رفتاری سے الیکٹرانک میڈیا کو فروغ ملا ہے اُس رفتار سے تربیت یافتہ صحافی اس میدان میں نہیں آئے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں نجی ٹی وی چینلز کے فروغ نے جہاں عام آدمی کو درپیش مسائل کو بھرپور انداز میں اُجاگر کیا ہے وہیں یہ حکومتوں کے لیے داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی تشکیل میں بھی ایک معاون کے طور پر سامنے آیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے اسی کردار پر اسلام آباد میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک سٹڈیزمیں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔ عمومی طور پر اس ادارے میں قومی سلامتی کے اُمور پر مکالمے میں شرکت کے لیے غیر ملکی سفارت کاروں کودعوت دی جاتی ہے لیکن پہلی مرتبہ میڈیاکے کردار کے بارے میں اس ادارے میں ایک روزہ مباحثے کا اہتمام کیا گیا جس سے اہم قومی معاملات میں رائے عامہ ہموار کرنے میں ذرائع ابلاغ کے اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے۔

سیمینار میں سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں اور تجزیہ کاروں نے میڈیا کی ترقی کو سراہتے ہوئے ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ اس تقریب میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی نمائندگی اُس کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کی۔

مقامی میڈیا کے کردار پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں قمرزمان کائرہ نے کہا کہ بعض اوقات عدالتوں میں زیر بحث حساس نوعیت کے معاملات پر قبل از وقت گفتگو شروع کر دی جاتی ہے اور اس کے بعد اُبھرنے والی رائے عامہ سے ناصر ف حکومت بلکہ خود عدالتوں کے لیے بھی مشکلات پید ا ہو جاتی ہیں۔

اُنھوں نے کہا حکومت میڈیا پر کسی طرح کی قدعن کے حق میں نہیں تاہم قمرزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ مقامی نجی ٹی وی چینلز کو دہشت گر د حملوں کی براہ راست کوریج اور انتہا پسندوں کے نکتہ نظر کوپیش کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سویلین حکومت کے متنازع اقدامات پر تنقید کرتے وقت بعض اوقات میڈیا اپنی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے جب کہ آمرانہ دور حکومت میں اس کا رویہ دفاعی ہوتا ہے۔

سیمینار میں شریک سینئیر صحافی ضیا الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کسی بھی معاملے پر میڈیا کو بحث سے روکا نہیں جاسکتا کیوں کہ مذاکرے کے بعد عوام کو اس بات کا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے خود قائم کرسکیں۔

اُنھوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں جس تیز رفتاری سے الیکٹرانک میڈیا کو فروغ ملا ہے اُس رفتار سے تربیت یافتہ صحافی اس میدان میں نہیں آئے لیکن ضیا الدین کا کہنا تھاکہ مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ صحافیوں کی دوران کار تربیت کا عمل جاری ہے اور آنے والے سالوں میں اس کمی پر بھی قابو پایا جاسکے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ کی طرف سے اعلان کردہ کیری ، لوگر برمن بل کے تحت ملنے والی غیر فوجی امداد کی بعض متنازع شقوں اور امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری جیسے معاملات کو مقامی میڈیا پر جس طرح اُجاگر کیا گیا اُس نے حکومت کو محتاط اور دفاعی رویہ اپنانے پر مجبور کیا ۔

لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وکی لیکس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور عسکری عہدیداروں سے جڑے انکشافات کے بارے میں میڈیا نے کھل کر اپنے ٹاک شوز میں بحث نہیں کی جو آزادی اور دباؤ قبول نہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے میڈیا گروپوں پر دباؤ کی غمازی کرتا ہے۔