پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے اس سال عید میلاد النبی پر سکیورٹی کے اضافی انتظامات بھی کیے گئے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں منگل کو عید میلاد النبی کے موقع پر ملک بھر میں جلوس نکالے گئے جب کہ سرکاری تقاریب میں پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو اجاگر کرتے ہوئے ملک میں قیام امن کے لیے علماء سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اسی مناسبت سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایوان صدر میں قومی سیرت کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں ملک بھر سے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے شرکت کی۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور سردار یوسف نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ملک کو دہشت گردی کے باعث سنگین خطرات لاحق ہیں اور اُنھوں نے زور دیا کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اتفاق و اتحاد ہی سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
سردار یوسف کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے اور کل جماعتی کانفرنس میں وضع کردہ لائحہ عمل کے مطابق طالبان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
’’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت طالبان سے مذاکرات کی خواہشمند ہے، تاہم ان مذاکرات کو موجودہ حکومت کی کسی طرح سے بھی کمزوری نا سمجھا جائے۔‘‘
وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور کا کہنا تھا کہ ملک میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے علماء کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے اس سال عید میلاد النبی پر سکیورٹی کے اضافی انتظامات بھی کیے گئے۔
ملک کے تمام بڑے شہروں کے علاوہ بعض حساس علاقوں میں بھی موبائل فون سروس منگل کو صبح ہی سے معطل کر دی گئی جسے شام کے بعد جزوی طور پر بحال کرنا شروع کر دیا گیا۔
کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں موبائل فون سروس دن بھر معطل رہی۔
ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اضافی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا جب کہ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد تھی۔
اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی سمیت کئی دیگر شہروں میں فوج کے دستوں کو بھی چوکس رہنے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اُنھیں طلب کیا جا سکے۔
مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذہبی اکابرین نے لوگوں کو اس موقع پر امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے اپیل بھی کر رکھی ہے۔
صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے اپنے الگ الگ پیغامات میں مذہبی روا داری اور ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے معاشرے کے تمام مکتبہ فکر خصوصاً علمائے دین اپنا موثر کردار ادا کریں۔
اسی مناسبت سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایوان صدر میں قومی سیرت کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں ملک بھر سے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے شرکت کی۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور سردار یوسف نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ملک کو دہشت گردی کے باعث سنگین خطرات لاحق ہیں اور اُنھوں نے زور دیا کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اتفاق و اتحاد ہی سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
سردار یوسف کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے اور کل جماعتی کانفرنس میں وضع کردہ لائحہ عمل کے مطابق طالبان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
’’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت طالبان سے مذاکرات کی خواہشمند ہے، تاہم ان مذاکرات کو موجودہ حکومت کی کسی طرح سے بھی کمزوری نا سمجھا جائے۔‘‘
وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور کا کہنا تھا کہ ملک میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے علماء کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے اس سال عید میلاد النبی پر سکیورٹی کے اضافی انتظامات بھی کیے گئے۔
ملک کے تمام بڑے شہروں کے علاوہ بعض حساس علاقوں میں بھی موبائل فون سروس منگل کو صبح ہی سے معطل کر دی گئی جسے شام کے بعد جزوی طور پر بحال کرنا شروع کر دیا گیا۔
کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں موبائل فون سروس دن بھر معطل رہی۔
ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اضافی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا جب کہ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد تھی۔
اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی سمیت کئی دیگر شہروں میں فوج کے دستوں کو بھی چوکس رہنے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اُنھیں طلب کیا جا سکے۔
مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذہبی اکابرین نے لوگوں کو اس موقع پر امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے اپیل بھی کر رکھی ہے۔
صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے اپنے الگ الگ پیغامات میں مذہبی روا داری اور ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے معاشرے کے تمام مکتبہ فکر خصوصاً علمائے دین اپنا موثر کردار ادا کریں۔