پاکستان میں اس سال جولائی کے مقابلے میں اگست کے مہینے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے لیکن مبصرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بعض شدت پسند عناصر سیلاب کی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے ہیں جب حکومت اور انتظامیہ کی تمام تر توجہ سیلاب سے متاثر علاقوں میں رسیکیو اور ریلیف ورک پر مرکوز ہے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی یکم ستمبر کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق اگست میں صوبہ خیبر پختونخوا میں تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن دوسری جانب اس دوران پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی کے مقابلے میں اگست میں ملک بھر میں ہونے حملوں میں مجموعی طور پر کمی آئی ہے ۔اس ماہ عسکریت پسندوں نے ملک بھر میں 31 حملے کیے جن میں سیکیورٹی فورسز کے 18 اہلکاروں سمیت 37 افراد ہلاک جبکہ 55 افراد زخمی ہوئے جن میں سیکیورٹی فورسز کے 9 اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسی سال جولائی میں عسکریت پسندوں نے ملک بھر میں 33 حملے کیے، جن میں 34 افراد ہلاک اور 46 زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست 2022 کے دوران ملک میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں معمولی کمی دیکھی گئی تاہم ہلاکتوں میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران صوبہ خبیر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں تشدد میں نمایاں کمی آئی جبکہ بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کلین اپ آپریشنز کے نتیجے میں ملک بھر میں آٹھ مبینہ عسکریت پسند بھی مارے گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیبر پختونخوا میں جولائی کے مقابلے میں اگست میں تشدد کے واقعات میں 33 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور اس دوران عسکریت پسندوں نے صوبے کے مختلف علاقوں میں آٹھ حملے کیے جن میں سیکورٹی فورسز کے آٹھ اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔
خیبر پختونخوا میں ہونے والے زیادہ تر حملے صوبے کے قبائلی اضلاع میں ہوئے جن میں سیکورٹی فورسز اور عام لو گوں کو نشانہ بنایاگیا۔ ان میں سے ایک حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر کے شدت پسند گروپ نے قبول کی تھی جبکہ تحریک طالبان پاکستان ' ٹی ٹی پی' نے قبائلی اضلاع میں ہونے والے کسی بھی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں جولائی 2022 کے مقابلے میں اگست میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 71 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ۔ اگست میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ 36 دیگر افراد زخمی ہوئے۔ ان میں سے بعض حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ گروپ بی ایل ایف اور بی ایل اے نے قبول کی ہے۔
SEE ALSO: بلوچستان کے عسکریت پسند گروپ سمجھتے ہیں کہ چین ان کے وسائل پر قبضہ کر لے گا: تجزیہ کارپاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے تحقیق کار عبداللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگست میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں معمولی کمی کے باوجود ملک کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات کے نوعیت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ صوبہ خبیر پختونخوا میں صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن بلوچستان میں عسکریت پسندی کی کارروائیو ں میں تیزی دیکھی گئی ۔ عبداللہ خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بلوچ انتہا پسندوں کی کارروائیاں زیادہ منظم انداز میں ہورہی ہیں اور اب وہ شہری علاقوں میں بھی سرکاری اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔
اگرچہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے شاید عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی آئےگی لیکن عبداللہ خان کہتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع اوردیگر علاقوں میں تشدد کے واقعات میں کمی تو ضرور آئی ہے لیکن ان کےبقول دوسر ی طرف بارشوں اور سیلاب کے باوجود بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سلامتی کے امور کےتجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کہتے ہیں کہ جب سیکورٹی فورسز اور انتظامیہ کی توجہ سیلاب کسے متعلق ریلیف ورک پر ہے اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ بعض شدت پسند عناصر نرم ا ہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو سیلاب کے دوران امدادی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کو بھی یقینی بنانا ہو گا تاکہ شدت پسند عناصر اس صورتحال کا فائد ہ نہ اٹھا سکیں۔
رواں سال مئی میں حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کے وساطت سے شروع ہونی والی امن بات چیت کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود صوبہ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی اور ہدف بنا ک ہونے والے ہلاکتوں کے واقعات کے بارے میں تجزیہ کار سید نذیر کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی جنگ بندی پر قائم ہے اور ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ ٹی ٹی پی حالیہ واقعات میں ملوث ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہد ف بنا کر ہلاک کرنے کے واقعات کا بظاہر مقصد ،ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان جاری امن مذکرات کو ناکام بنانا ہے تاکہ عام لوگوں میں اس بات چیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں۔
SEE ALSO: کیا طالبان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف کارروائیوں سے صرف نظر کر رہی ہے؟
بریگیڈئیر سید نذیرکہتے ہیں حال ہی میں سرحد پار افغانستان میں ہونے کے والے کئی حملوں میں دہشت پسند گروپ داعش ملوث پایا گیا ہے جو نہ صرف خطے بلکہ خطے کے باہر ممالک کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔
لیکن دوسری جانب بلوچستان میں بیشتر دہشت کرد حملوں کی ذمہ داری بلوچ شدت پسند وں گروپوں کی طرف سے قبول کی گئی ہے اور بریگیڈئر سید نذیر کہتے ہیں کہ کہ ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اب داعش اور ٹی ٹی پی کے بعض منحرف دھڑے بھی بلوچ شدت پسند گروہوں کے ساتھ شامل ہورہے ہیں تاکہ صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی جائیں۔
سید نذیر کہتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باوجود بلوچستان میں شدت پسندی اور ان قوم پرست عناصر کی کارروائیوں میں کمی نہیں آئی ہےجو بعض اوقات مقامی بلوچ عناصر کی محرومی کو ہو ا دے کر امن وامان کے مسائل پید اکرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت نے متعدد بار بلوچ عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے خیال میں سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
تاہم سید نزیر کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کر کے صوبے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسند ی کی کارروائیوں کو کنڑول کر سکتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں صوبے میں سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے بلوچ عوام بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول اس کے لیے سیاسی اور حکومتی سطح پر ایک جامع حکمت عملی اخیتار کرنی ہوگی۔