خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے بالائی پہاڑی علاقوں میں فرنٹیئر کور کے دستے تعینات ہیں اور وہاں سے مبینہ عسکریت پسندوں کو نکالنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں البتہ مقامی لوگ اب بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
ابھی تک ضلعے بھر میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں جب کہ تمام سرکاری اداروں کے دفاتر اور تعلیمی ادارے کھلے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں کے اہلکار اہم شاہراہوں، چوکیوں اور چوراہوں کی نگرانی کر رہے رہے ہیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی شہزاد عالم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تحصیل مٹہ کے بالائی پہاڑی علاقوں پیوچار، کنالہ، بالاسور چپریال اور شور میں فرنٹیئر کور کے دستے تعینات کیے گئے ہیں جب کہ ان علاقوں میں طالبان کی چند روز قبل قائم کردہ چوکیوں پر قبضہ کرکے، حکام کے بقول سرچ آپریشن بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
ہفتے کو سیکیورٹی حکام نے مختلف بیانات میں پشاور اور ضلع خیبر سے مجموعی طور پر 214 سیکیورٹی اہلکاروں کو ضلع سوات میں کانجو منتقل کرنے کا بتایا ہے۔
سوات کے ایک اور صحافی عیسیٰ خان خیل کے مطابق سیکیورٹی اہلکاروں کے یہ دستے بعد میں پہاڑی علاقوں میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار یہاں پر چھ ماہ تک تعینات رہیں گے۔
فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اتوار ایک بیان جاری کیا تھا جس میں مٹہ کے پہاڑی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس سلسلے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ، صرف چند افراد پہاڑی علاقوں میں دیکھے گئے تھے جو بعد میں غائب ہو گئے۔
واضح رہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے پولیس افسر سمیت چار سیکیورٹی اہلکاروں کو گزشتہ منگل کو رہا کیا گیا تھا، جس کے بعد حکام نے ذرائع ابلاغ کو عسکریت پسندوں کے کسی اور نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔
سوات کے صحافی شہزاد عالم کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک عہدیدار نے انہیں فون پر بتایا کہ عسکریت پسند افغانستان سے نہیں آئے بلکہ ان کے ساتھی 2009 سے اس علاقے میں موجود ہیں۔
سیکورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے اور پھر ان کی رہائی کے بعد عسکریت پسندوں کی افغانستان روانگی کی اطلاعات پر صحافی عیسیٰ خان خیل نےبتایا کہ مٹہ اور پاکستان افغانستان کی سرحد کے درمیان نہ صرف فاصلہ بہت زیادہ ہے بلکہ دونوں علاقوں کے مابین سڑکوں پر سیکیورٹی فورسز کی کئی چوکیاں ہیں جب کہ اتنی جلد سوات سے افغانستان منتقلی آسان نہیں ہے۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر نے نام نہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب حالات معمول کے مطابق ہیں البتہ لوگ اب کافی مستعد ہوگئے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر 2006 سے 2009 والے حالت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے جمعے کو مختلف مقامات پر مظاہروں میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تحصیل بابوزئی کی سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں اور کاروباری انجمنوں کا ایک روایتی جرگہ بدھ کو ہونے والا ہے جس میں شرکا دیگر امور کے ساتھ ساتھ طالبان کے منظرِ عام پر آنے اور سرگرمیاں شروع کرنے کے بارے میں تبادلۂ خیال کریں گے ۔
صحافی عیسی خان خیل نے بھی سابق وزیر کے اس مؤقف کی تائید کی کہ لوگ کسی بھی قیمت پر سوات کے امن و امان کو خراب کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
سوات کی پولیس نے جمعے کو تحصیل خوازہ خیلہ میں مبینہ عسکریت پسندوں کے موجودگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے غیرت خان یوسف زئی اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ صحافی شہزاد عالم کے مطابق مقدمہ داخلِ دفتر کر دیا گیا ہے اور کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) زاہد نواز مروت نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ نامزد ملزم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ مظاہرے کے دوران سیکیورٹی فورسز اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف منفی نعرے لگانے پر درج کیا گیا۔
زاہد نواز مروت نے کہا کہ ان ملزمان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
مقامی صحافیوں کے مطابق سیاسی کارکن مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر شدید ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ اگر پولیس نے گرفتاریاں کیں تو احتجاج کے امکانات موجود ہیں۔
صحافی عیسی خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سوات میں جمعے کو مظاہروں کے بعد تو حالات معمول پر آچکے ہیں البتہ بڑے جاگیردار، سیاسی رہنما اور کاروباری شخصیات خوف کا شکار ہیں ۔ان کے مطابق ماضی میں بھی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعیناتی کے بعد عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔
سوات سے ملحقہ اضلاع بونیر اور دیر میں بھی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان نے تحریکِ التوا اسمبلی میں پیش کی ہے۔
اتوار کو سابق وفاقی وزیر اور صوبے کی حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے رہنما مراد سعید نےکسی ادارے کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ بعض حلقے ایک بار پھر سوات میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں جس کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے حکومت سے سوات میں عسکریت پسندوں کے منظرِ عام پر آنے اور سرگرم ہونے کے واقعے کی فوری تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے آئی ایس پی آر کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مٹہ میں جمع ہونے والے افراد کی تعداد کم تھی البتہ ذرائع ابلاغ نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس سے عوام میں خوف وہراس پیداہوا۔
بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ وہ (عسکریت پسند) اب جا چکے ہیں۔ وہاں پر سیکیورٹی فورسز کے دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کے ساتھ سرحد پار افغانستان میں مصالحت کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات سے مذاکرات پر کسی قسم کے منفی اثرات نہیں پڑیں گے۔
انہوں نے مذاکرات کے مثبت سمت میں جاری رہنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بہتر نتائج بہت جلد سامنے آجائیں گے۔
ادھر افغانستان کی سرحد سے ملحقہ ضلع باجوڑ میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے تحصیل ناظم کی گاڑی کو پیر کی صبح دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا۔
بم حملے میں جمعیت علما اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے تحصیل ناظم زخمی ہوئے اور ان کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچا ۔
ابھی تک اس بم حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ۔