امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ اب تک ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ تا ہم، اس حقیقت سے کہ دنیا کی یہ مشہور دہشت گرد شخصیت ، فوجی تنصیبات کے اتنے قریب آرام سے رہ رہی تھی، ایک بار پھر ان شبہات کو جنم دیا ہے کہ اپنی بھارت مخالف پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے، پاکستان نے اسلامی عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کی ہے ۔
ایک حالیہ کانفرنس میں محکمۂ دفاع کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جیمز کلاڈ نے کہا کہ پاکستان اپنی پالیسی کے بارے میں جو بھی فیصلے کرتا ہے، ان پر بھارت کے خوف کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔’’میرا خیال ہے کہ پاکستان خارجی حالات کو، باہر کی طاقتوں کو ،اپنے وجود کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیئے استعمال کرتا ہے ۔ یہ خطرات افغانستان سے پیدا نہیں ہوتے، بلکہ فوج کے افسروں کے ذہن میں، ملک کے مشرق سے، یعنی بھارتیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
امریکی سینیٹ کی ایک سماعت میں، قومی سلامتی کے سابق مشیر، ریٹائرڈ میرین کور کے جنرل جیمز جونز نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر سخت تشویش ہے۔’’بدقسمتی سے بھارت کے سلسلے میں ان کی تشویش افغانستان کے حوالے سے ہے ۔ اگر آپ اس معاملے کو ان کے نقطۂ نظر سے دیکھیں، تو شاید آپ کو بھی کچھ پریشانی ہوگی، یعنی ان کے مشرق میں بھارت ہے، اور مغرب میں افغانستان ہے ۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی سے ، لمبی مدت کے لیے اپنے مستقبل کے بارے میں ان کے خدشات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘
بھارت نے جو بڑی تیزی سے اقتصادی ترقی کر رہا ہے، 2001 میں طالبان کے زوال کے بعد سے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی اور اقتصادی تعلقات مضبوط کر لیے ہیں۔
امریکی عہدے داروں نے پاکستانی کی طاقتور اور متنازع خفیہ ایجنسی، انٹر سروسز انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ یا آئی ایس آئی اور افغان طالبان کے درمیان رابطوں کا حوالہ دیا ہے ۔ افغان طالبان کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو کی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔
1990 کی دہائی سے آئی ایس آئی نے جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ جیسے اسلامی جنگجو گروپوں کو بھی تربیت دی ہے تا کہ وہ بھارت کی زیرِ کنٹرول کشمیر میں جنگی کارروائیاں کر سکیں۔ لیکن 2008 میں ، لشکرِ طیبہ نے بھارت کے شہر ممبئی کے وسط میں دہشت گردی کا ایک زبردست حملہ کیا جس میں 160 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
اس حملے میں براہ راست آئی ایس آئی کا کیا رول تھا یہ بات واضح نہیں ہے۔ لیکن ایک امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی نے ایک امریکی عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے حملے کے لیئے بعض اہداف کی نشاندہی کی تھی۔ اووِن سِرس ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق تجزیہ کار ہیں جو آئی ایس آئَی کی تاریخ تحریر کر رہےہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ آئی ایس آئی کے رول کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
’’آپ مزید اس خیال پر قائم نہیں رہ سکتے کہ آئی ایس آئی ایک مسئلہ تو ہے لیکن ہم بالآخر اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔ اس مسئلے کی بنیاد بھارت کے بارے میں پاکستان کے اندیشوں سے ہے۔ یہ انداز فکر آئی ایس آئی میں راسخ ہو چکا ہے جسے انہیں خود ہی حل کرنا ہوگا لیکن اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
امریکی اسپیشل فورسز کا چھاپہ جس میں امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی فورسز کی مداخلت کے بغیر ایبٹ آباد میں داخل ہوئے اور واپس چلے گئے، پاکستانی فوج کے لیے شرمندگی کا باعث ہوا ہے جس کے ذمے بھارت سے پاکستان کی حفاظت کا کام ہے ۔ اسلام آباد میں عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکی ہماری سرحدوں کے اندر اس دیدہ دلیری سے داخل ہو سکتے ہیں، تو کیا بھارت ایسا نہیں کر سکتا؟
قومی سلامتی کے سابق مشیر جونز نے کہا کہ انہیں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت کے معاملے میں پاکستان امریکہ کا کوئی مشورہ سننے کو تیار نہیں ہوگا۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی وجہ صرف یہ الزامات نہیں ہیں کہ آئی ایس آئی عسکریت پسندوں کی مدد کرتی ہے ۔ پاکستان کو جو امریکہ سے اربوں ڈالر کی امداد وصول کرتا ہے، واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتے ہوئے قریب تعلقات پر بھی تشویش ہے ۔امریکہ اور بھارت کے درمیان سویلین نیوکلیئر شعبے میں تعاون کا سمجھوتہ ہوا ہے ۔ پاکستان بھی امریکہ کے ساتھ اس قسم کے سمجھوتے کا خواہاں ہے ۔ گذشتہ سال صدر براک ا وباما نے بھارت کے لیئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کی حمایت کی تھی۔