امریکی بحریہ کے ایڈمرل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک ملن نے کہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور آئی ایس آئی کے درمیان دیرینہ تعلقات سے ان کا ملک بخوبی آگاہ ہے تاہم ’’اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آئی ایس آئی کا ہر اہلکار اس میں ملوث ہے‘‘۔
بدھ کو اسلام آباد میں پاکستانی فوجی رہنماؤں سے بات چیت کے بعد نجی ٹی وی چینل جیو کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک خاص طور پرامریکیوں کو ہلاک کرنے کے لیے طالبان کو افغانستان بھیج رہا ہے جو ایک انتہائی تشویش ناک اور ناقابل برداشت امرہے۔
ایڈمرل ملن نے کہا کہ ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے وہ ہر ممکن اقدامات کریں گے اور اس مسئلے پر جنرل اشفاق کیانی سے بات چیت میں وہ کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ امریکی شہریوں کا تحفظ ان کی مقد س ذمہ داری ہے۔
ایڈمرل مائیک ملن نے کھل کر اس بات بھی اعتراف کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات حالیہ دنوں میں مشکلات سے دوچار رہے لیکن دونوں ملکوں کے رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ خصوصاَ دوطرفہ فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے مابین تعاون کا تسلسل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس سے متعلق معاملات، ڈرون حملو ں اور دیگر متنازعہ اُمور پر اختلافات کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر دونوں ملکوں کے قائدین ان پر پوری توجہ مرکوز رکھیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے وجود کا مقصد پاکستانی شہریوں کا تحفظ ہے اور وہ ایک طویل عرصے سے اس حوالے سے مخصوص پالیسوں پر عمل پیرا ہیں۔
لیکن ایڈمرل ملن نے کہا کہ ان پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام راتوں رات نہیں ہوگا۔ اُن کا اشارہ بظاہر پاکستانی حکام کی اس دلیل کی طر ف تھا کہ حقانی نیٹ ورک اوراس سے منسلک دیگر شدت پسند تنظیمیں پاکستان مخالف نہیں اور اگر ان کے خلاف فوجی کاورائی کی گئی توردعمل میں پاکستانی شہریوں کو مزید خودکش اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں پوچھ گئے سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے ایڈمرل ملن نے کہا کہ امریکہ تمام معاملات اور ان کے اثرات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا پر زور دیتا آیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ لشکر طیبہ بھی ایک بڑا خطرہ بنتی جارہی ہے اور اب یہ صرف بھارت مخالف تنظیم نہیں رہی ہے کیوں کہ اس نے مغربی ملکوں تک اپنی کارروائیوں کو وسعت دینے کا کھل کر اظہار کیا ہے۔
ایڈمرل ملن تسلسل کے ساتھ پاکستان کے دورے کرتے رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے عہدے داروں کے بقول اُن کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے قریبی اور مثبت تعلقات ہیں۔
لیکن حالیہ دورہ اُنھوں نے ایک ایسے وقت کیا ہے جب امریکی خفیہ ادارے ”سی آئی اے“ سے نجی حیثیت میں منسلک اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی حالیہ گرفتاری کے بعد پاکستان میں امریکہ کی سرگرمیوں کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پائی جا رہی ہے۔
ایک روز قبل افغانستان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مائیک ملن نے کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں ہی فوجی اور انٹیلی جنس روابط کو توڑنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اُنھوں نے کہا کہ دو طرفہ تعلقات مشکلات کا شکار ہیں لیکن کشیدگی کے باوجود طرفین اِن کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ”اگر رابطے ٹوٹ گئے تو یہ دونوں ملکوں اور خطے کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔“
آڈیو رپورٹ سنیئے: