نیب کو 25 دن کی پوچھ گچھ کے بعد بھی سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ان کے سوالوں کا جواب نہیں مل سکا۔ آشیانہ ہاوسنگ اسکینڈل میں گرفتار شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 9 دن کی مزید توسیع کر دی گئی ہے۔
شہباز شریف کو سیکورٹی حصار میں پیر کی صبح نیب عدالت لاہور میں پیش کیا گیا۔ عدالت میں تیسری پیشی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور عدالت سے اپنی بات بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر اپنی صفائی میں دلائل دیتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں خون کا سرطان ہے، ایک ہفتہ پہلے نیب میں میڈیکل ٹیسٹ کرانے کی درخواست دینے کے باوجود معمول کا طبی معائنہ بھی نہیں کرایا جا رہا۔ شوگر بھی چیک نہیں کی جا رہی۔
نیب کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جھوٹے کیسز میں ملوث کر کے نیب حکام مجھے بلیک میل کرتے ہیں۔ مجھے بلایا صاف پانی کیس میں گیا جبکہ گرفتاری آشیانہ اقبال ہاوسنگ کیس میں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے قوم کے اربوں روپے بچائے ہیں۔ نیب والے سچ بولنے کی بجائے سچ چھپا رہے ہیں۔ انہوں نے گھر والوں سے ہفتہ وار ملاقات کی اجازت نہ ہونے کی شکایت بھی کی۔ کہا کہ اتنی بندش تو مارشل لا میں بھی نہیں ہوتی۔ بھارتی ایجنٹ کو فیملی سے ملاقات کی اجازت تھی اور مجھے تو وہ بھی نہیں۔
جواباً نیب کے وکیل نے موقف اپنایا کہ تین بار وزیراعلیٰ پنجاب رہنے والے شہباز شریف سے جب سوال کیا جاتا ہے تو وہ جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کرنے لگتے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ احد چیمہ سے تفتیش کے بعد آشیانہ اقبال کی زمین کی قیمت 23 ارب روپے سامنے آئی جبکہ فزیبیلٹی 14 ارب بتائی گئی تھی۔ جو جعل سازی پر مبنی تھی۔ پیراگون ہاوسنگ سوسائٹی کو بھی دو ہزار کنال اراضی دے کر فائد پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
شہباز شریف نے تفتیشی افسر کی رپورٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نیب کو یہ سوال مجھ سے پوچھنے کی بجائے ایل ڈی اے سے پوچھنا چاہئیے کیونکہ فزیبیلیٹی رپورٹ انہوں نے تیار کی تھی۔ اس موقع پر عدالت نے نیب کی 15 روزہ ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں9 روز کی توسیع کی جبکہ 3 دن کے لئے راہداری ریمانڈ بھی منظور کر لیا گیا۔
مرکز میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے راہنما اور کارکن بھی بڑی تعداد میں وہاں موجود رہےتاہم انہیں عدالت کے احاطے میں جانے سے روک دیا گیا، جس پر کارکن بھڑک گئے اور تحریک انصاف کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ جس پر لیگی کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی اور کارکنوں کو پیچھے دھکیلنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔
اس موقع پر سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ14 اکتوبر کے بعد اس حکومت کے ذہن پر خوف طاری ہو چکا ہے اور انکی ذہنیت کنٹینر تک کی ہے۔ احتساب عدالت کے اطراف کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ ایسی کونسی چیز ہے جو عوام سے چھپائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگی کارکنان کے لئے پولیس اور رینجرز کی تعیناتی غیر جمہوری عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب جھوٹے نعرے لگاتے تھے کہ پولیس کو غیر سیاسی کریں گے۔ انہوں نے تو پولیس کے ذریعے سیاست شروع کی ہے۔
رکن قومی اسمبلی ملک پرویز کا کہنا تھا کہ ہمیں یہاں آنے سے زبردستی روکا گیا۔ گھروں کے باہر پولیس تعینات کی گئی۔، حراساں کیا گیا۔ ہم چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا نوٹس لیں۔
کارکنوں کے درمیان موجود رکن پنجاب اسمبلی وحید گل نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہ جمہوریت ہے؟ کیا سیاسی ورکروں کو روکنا آزادی ہے؟
ادھر اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی شہباز شریف کی حمایت میں بولے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کیا ہے۔ انہیں تو شاباش ملنی چاہئیے تھی۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہ بھی جیل میں ہیں اور نیب کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ جبکہ شہباز شریف پر ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔
شہباز شریف کو ریمانڈ ختم ہونے پر 7 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔