|
اسلام آباد -- پیر کی صبح حکومتی ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات سے واضح ہو رہا تھا کہ وفاقی حکومت منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کروانے کی تیاری مکمل کر چکی ہے۔
اور جب پیر کی شام دیر سے قومی اسمبلی کے منگل کے روز ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا سامنے آیا تو موصول ہونے والی اطلاعات سچ لگنے لگیں کیوں کہ قومی اسمبلی کے منگل کو ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں یہ شامل تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں تحریکِ انصاف کو دینے کا حکم دیا تھا۔ تاہم حکومت نے عدالتی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 میں ایک مقررہ مدت کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہونے والوں ارکان کی آزاد حیثیت برقرار رہنے کی شق بھی شامل ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سب سے پہلے پاکستان میں پاسپورٹ کے اجرا میں تاخیر کے متعلق معاملے پر بات ہوئی۔
پاسپورٹ ایشو کے بعد قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین رانا ارادت شریف خان نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔
الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل 30 جولائی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جس کو اگلے ہی دن قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور نے کثرتِ رائے سے منظور کردیا تھا۔
منگل کو جیسے ہی مسلم لیگ (ن) کے بلال اظہر کیانی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کو منظوری کے لیے پیش کیا تو اپوزیشن ارکان نے احتجاج، ہنگامہ، شور اور نعرے بازی شروع کردی۔ اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر اسپیکر کی ڈائس کے سامنے اکٹھے ہو گئے اور ترمیمی بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھنک دیں۔
اس دوران ایوان میں 'سپریم کورٹ پر حملہ نامنظور' جیسے نعرے لگنے لگے مگر شدید نعرے بازی، احتجاج کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کا عمل بھی جاری رہا۔
چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کو شیخ حسینہ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ جب عوام کا مینڈیٹ چھینا جاتا ہے تو پھر حال بنگلہ دیش جیسا ہوتا ہے۔
تحریکِ انصاف کے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیمی بل عدلیہ پر حملہ ہے اور یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ لہذٰا اسے چیلنج کیا جائے گا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ قانون سازی کرنا اس ایوان کا حق ہے۔ یہ بل آئین کی روح کے خلاف نہیں ہے۔ اس طرح شدید شور اور ہنگامے کے دوران ترمیمی بل کو کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سینیٹ آف پاکستان میں بھیج دیا گیا اور خلافِ روایت اسی روز منظور بھی کر لیا گیا۔ عام طور قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے منظوری میں چند روز لگ جاتے ہیں۔
سینیٹ کے اجلاس میں قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل طلال چودھری نے پیش کیا اور رولز معطل کروا کر اسے منظوری کے لیے پیش کردیا گیا۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی اس بل کی شدید مخالف کی اور شور شرابہ کرتی رہی مگر حکومت شور شرابے اور اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود ترمیمی بل منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔
عدالتی فیصلے پر نظرِثانی کی اپیل کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کے ذریعے بھی اس فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا تھا۔
ترمیمی بل کے تحت الیکشن ایکٹ کی سیکشن 66 اور 104 میں میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
ترمیم میں کہا گیا ہے کہ مقررہ نشان الاٹ کرنے سے اگر کسی اُمیدوار نے کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا بیانِ حلفی ریٹرننگ افسر کے سامنے جمع نہیں کرایا تو اسے آزاد اُمیدوار ہی تصور کیا جائے گا۔
سیکشن 104 میں مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مذکورہ بیان کردہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرانے میں ناکام رہتی ہے وہ اس مرحلے کے گزر جانے کے بعد مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے اہل نہیں ہو گی۔