نگران وزیر اعظم ناصر الملک کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ملک میں سیکورٹی کی صورت حال اور رواں ماہ ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس سے پہلےبین الاقوامی ادارے کی طرف سے تجویز کردہ اقدمات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں نگران وزیر خارجہ و دفاع عبداللہ حسین ہارون، نگران وزیر داخلہ محمد اعٖظم خان، نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر، نگران وزیر قانون و اطلاعات علی ظفر، اعلیٰ عسکری حکام، انٹلی جنس ادارے، آئی ایس کے سربراہ اور قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے شرکت کی۔
وزیر خزانہ شمشاد اختر نے قومی سلامتی کمیٹی کو پاکستان کی طرف سے کیے گئے ان انتظامی اور قانونی اقدامات سے آگاہ کیا جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فریم ورک کے تحت کرنا ضروری ہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی نے پاکستان کی طرف سے اب تک کیے گئے اقدامات سے فنانشل ٹاسک فورس کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم، کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں ان اقدامات کی تٖفصیل بیان نہیں کی گئی۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار عابد سلہری کا کہنا ہے کہ رواں سال فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے بعد پاکستان نے کالعدم شدت پسند تنظیموں کو مالی وسائل کی روک تھام کے کئی اقدام کئے ہیں۔
جمعہ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب حکومت اسی سلسلے میں مزید اقدام کرنے والی ہے۔ بقول اُن کے، "میرا خیال ہے کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے قوانین کو اور مضبوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہوگی۔ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں ایک بڑی ترمیم تو پہلی کی جا چکی ہےاور اب اقوام متحدہ کی قراردوں کے تحت جن تنظمیوں پر تعزیرات عائد ہیں ان پر پاکستان میں بھی پابندی عائد ہو جاتی ہے۔ "
انہون نے مزید کہا کہ حکومت نےملک میں ان کالعدم تنظمیوں کے زیر سایہ چلائے جانے والے فلاحی اداروں کو بھی اپنی تحویل میں لیا ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ اب تک کئے گئے اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کی شدت پسند سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل فراہم نا ہو سکیں۔
دہشت گردی کے لیے مالی وسائل اور رقوم کی غیر قانونی منتقلی پر نظر رکھنے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس رواں ماہ فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والا ہے، جس میں پاکستان کا ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا جو اس ضمن میں قابل ذکر اقدام نہیں کر رہے۔