پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد دنیا کی توجہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ہے جس میں قابلِ ذکر امریکہ اور افغانستان کے حوالے سے پالیسی ہے۔ماہرین کہتے ہیں روایتی طور پر پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہی ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین کرتی ہے اور سویلین حکومتوں کے آنے یا جانے سے اس میں کوئی نمایاں تبدیلی کے آثار نہیں دیکھے جا سکتے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان میں عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف نے ملک کے 23 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ جس کے بعد امریکہ اور بھارت سمیت کئی ملکوں کے سربراہان نے نئی حکومت کے لیے تہنیتی پیغامات بھیجے۔ تاہم افغانستان کی جانب سے تاحال کوئی پیغام اسلام آباد کو موصول نہیں ہوا۔
مبصرین اسے پاکستان کی جانب سے سینیچر کے روز ہونے والے جیٹ طیاروں کی بمباری کے بعد ہونے والے حالات و واقعات کو قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے سرکاری سطح پر جیٹ طیاروں کی بمباری کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن افغان طالبان نے اس بابت سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق صوبہ خوست اور کنڑ میں کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں عورتوں اور بچوں سمیت 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
SEE ALSO: افغان سرحدی صوبوں میں بمباری سے اموات، اقوامِ متحدہ کا اظہارِ تشویشکابل میں مقیم بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر جاوید مہمند جاوید مہمند کے خیال میں پاکستان کے نئے وزیرِ اعظم کی حلف برداری کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے صوبہ خوست اور کنڑ میں جیٹ طیاروں کے ذریعے کارروائی کی گئی تاکہ انہیں یہ باور کرایا جا سکے کہ اسلام آباد بھی طالبان کے ساتھ امریکہ اور مغربی ممالک کی طرز پر سیاسی تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں افغان عوام کے پاکستان مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور مذکورہ واقعات اس میں مزید شدت لا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس اگست کے وسط میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کو یہ توقع تھی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ لیکن پاکستان فوج کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران سرحد پار سے حملوں کے نتیجے میں 100 کے قریب سیکیورٹی اہلکار نشانہ بن چکے ہیں۔
'پاکستان کو ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی'
سینئر تجزیہ کار اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اسلام آباد کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے زیادہ مثبت پالیسی نہیں رہی ۔پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افرا سیاب خٹک کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گزشتہ پالیسیوں کو تبدیل کیا جا ئے اور تمام تر توانائی اقتصادی ترقی، جمہوریت کی بقا اور امن و امان کے قیام پر مرکوز کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے چہروں پر خوشحالی لائی جائے۔ ان کے بقول افغانستان کے شمال اور مغرب میں تین پڑوسی ملکوں نے ریلوے لائن بچھا دی ہے۔ازبکستان کی ریلوے لائن مزار شریف تک آتی ہے جب کہ ترکمانستان کی ریلوے لائن اپنی سرحد تک پہنچ چکی ہے اور ایران کی ریل گاڑی افغانستان کے صوبہ ہرات تک آتی ہے۔ اس کے برعکس نوے کی دہائی سے لے کر تا حال پشاور- طورخم چالیس میل سڑک دو رویہ نہیں بن سکی۔
Your browser doesn’t support HTML5
افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تجارتی، ثقافتی اور برادری سطح کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے لیے بھی مضر ثابت ہوئی ہے۔
پروفیسر جاوید مہمند کہتے ہیں پاکستان اقتصادی اور سیاسی بحران کا شکار ہے ایسے میں نئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو چاہیے کو وہ دونوں ملکوں کو کشیدگی سے دور رکھنے کے لیے کردار ادا کریں۔ ان کے بقول جنگی پالیسیاں افغان عوام کو پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کا باعث بن سکتی ہیں جس کی وجہ سےشر پسند عناصر اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
انہوں نےاس بات پر زور دیا کہ پاکستان افغان سرزمین کو سیاست کے بجائے بطور ٹرانزٹ استعمال کرے کیوں کہ دونوں جانب پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ تجارت کے ذریعے سے ممکن ہے۔
پروفیسر جاوید مہمند کے خیال میں افغانستان پاکستان کے لیے وسطی ایشیا سے تجارت کے لیے ایک گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اس میں مزید فعال کردار ادا کر سکتا ہے ۔ اس لیے دونوں ہمسایہ ملکوں کو تجارت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔