صدر بائیڈن کا پاکستان کے جوہری پروگرام پر بیان کیا سوچی سمجھی پالیسی ہے ؟

فائل فوٹو

پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات پر نظررکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں گزشتہ ہفتے دیے گئے بیان کے باوجود اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔

یادر ہے کہ صدر بائیڈن نے گزشتہ جمعرات کو لاس اینجلس میں ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی سے خطاب کے دوران چین کے دیگر ممالک بشمول بھارت ،روس اور پاکستان کےساتھ تبدیل ہوتے روابط کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کوایک خطرنا ک ملک قرار دیا جس کے پاس ان کے بقول ’’ بغیر کسی ہم آہنگی کے، جوہری ہتھیار ہیں‘‘۔

صدر بائیڈن کے بیان کے بعد پاکستان نے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر ڈونالڈ بلوم کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے امریکی صدر کے بیان پر وضاحت طلب کی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ پاکستان کو جوہری پروگرام نہایت ہی محفوظ ہے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی صدر بائیڈن کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے جوہر ی اثاثوں کے تحفظ کے لیے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے وضع کردہ تمام بین الاقوامی معیار کی پابندی کی جاتی ہے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں صدر بائیڈن کا بیان امریکی حکومت کی طے شدہ پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔

SEE ALSO: پاکستان نے جوہری اثاثوں سے متعلق بائیڈن کے بیان کو مسترد کر دیا


اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ یہ عین ممکن ہے آخر وقت میں صدر بائیڈن کو پاکستان کے بارے میں کوئی بریفنگ ملی ہو گی اور انھوں نے اس کا تذکر ہ اپنی تقریر میں کر دیا ہو ۔

صدر بائیڈن کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کی درمیان سیاسی کشیدگی کی وجہ سے میں ملک میں سیاسی استحکام کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید صدر بائیڈن کے بیان کا تعلق پاکستان کی موجود سیاسی صورتحال سے ہو سکتاہے۔

تاہم پاکستان کے سابق سفارت کار اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے ، ہم آہنگی نہیں ہے لیکن انھوں نے کہا یہ مسائل کہاں نہیں ہیں امریکہ کے اندر سیاسی ہم آہنگی بھی شاید نہیں ہے۔

تاہم پاکستان کے سابق سفارت کار نے کہا کہ صدر بائیڈن کی طرف سے پاکستان کے جوہری بیان کے متعلق دیئے گئے بیان کی اس وقت کوئی وجہ نہیں بنتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ نہ تو پاکستان کی سیاسی صورتحال کا مسئلہ ہے اور نہ ہی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کے تحفظ کا معاملہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے حالیہ رابطوں کے دوران اٹھا یا ہے اور نہ ہی ایسے معاملات سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اٹھائےگئے ۔

SEE ALSO: امریکہ کے اپنے مخالفین سے تعلقات خراب ہو رہے ہیں، سروے میں شہریوں کی رائے


یادرہے کہ صدر بارک اوباما کے دور میں پاکستان کے جوہر ی پروگرام کےبارے میں امریکہ اور پاکستان کے حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں پاکستان کے جوہری پروگرام میں بات ہوتی رہی ہے لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کےدرمیان اسے زیر بحث نہیں لایا گیا۔ اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے لیکن پاکستان کا جوہری پروگرام ہمیشہ محفوظ رہا ہے۔

اعزاز چودھری کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ صدر بائیڈن کے بیان کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہو ں گے۔ انھوں نے کہا دوسری جانب پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے رابطے اس بات کا مظہر ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسری کی ضرورت ہے ، خاص طور سے ایسے میں جب افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کےبعد دہشت گرد گروپ دوبارہ فعال ہورہے ہیں۔ دوسری جانب ان کے بقول خطے میں بڑی طاقتوں کی مخاصمتوں کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت برقرار رہے گی۔

دوسری جانب صدر بائیڈن کے بیان کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سکرٹری کیرین جین پیئر نے معمول کی بریفنگ کے دوران جمعے کو صدر جو بائیڈن کےبیان پر تبصر ہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کا پاکستان سے متعلق بیان کوئی نئی بات نہیں ہے اور ان کےبقول صدر بائیڈن ایک خوشحال اور محفوظ پاکستان کو امریکہ کے مفاد کے لیے اہم خیال کرتے ہیں۔

SEE ALSO: ایران جوہری معاہدہ ابھی توجہ کا مرکز نہیں، امریکہ

صدر بائیڈن کا بیان ایک ایس وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں ان کی انتظامیہ کی قومی سلامتی کی اسٹرٹیجی میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر نواز جسپال کہتے ہیں کہ امریکہ اب پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کی اسٹریٹجی سے ہٹ کر دیکھ رہا ہے کیونکہ اب امریکہ خطے میں چین کو اپنا ایک بڑا حریف قرار دیتا آرہاہے۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی ایسی وضع کرے جو ان کے مفاد کے خلاف نہ ہو ۔
ظفرجسپال کہتے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کے بیان کا تعلق امریکہ میں درمیانی مدت کے انتخابات سے بھی ہو سکتا ہے جس میں چین کا ذکر امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم معاملے کے طور پر ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا اس لیے امریکی پاکستان کو چین کا قریبی اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کے بیان کو امریکہ کے اندرونی سیاست کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ، نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کی مہم کے دوران اس طرح کی مزید بیانات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ دوسری جانب پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں صدر بائیڈن کے بیان کا ایک تاریخی سیاق و سباق بھی ہے ، صدر بائیڈن ماضی میں صدر بننےسے قبل بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ بائیڈن کا تازہ بیان بھی ان کے بقول اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں کچھ پریشانی ضرورہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی پریشانی بجاہے کیونکہ جب سے پاکستان ایک جوہری ملک بنا ، وہ اپنی سلامتی کے بارےمیں زیادہ بااعتماد ہو گیا ، اس لیے ماضی کے برعکس اپنی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کا امریکہ پر انحصار کم ہو تا گیا ۔