پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت مخالف تحریک کے دوسرے مرحلے میں استعفے لے کر جنوری یا فروری کے اوائل میں لانگ مارچ کا عندیہ دیا ہے۔
لاہور کے مینارِ پاکستان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم رہنماؤں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں اب حکومت کے خلاف فیصلہ کن مارچ ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے الزام لگایا کہ پارلیمنٹ کو آئی ایس آئی کا ایک سابق افسر چلا رہا ہے جس کا نام پورے اسلام آباد کو پتا ہے۔
مریم نواز نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا اور جنرل ظہیرالاسلام پر الزام لگایا کہ اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف دھرنے کرائے۔ مریم نواز نے کہا کہ 2011 میں تحریکِ انصاف کے مینارِ پاکستان جلسے کا اہتمام بھی جنرل احمد شجاع پاشا نے کیا۔
مریم نواز نے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ لانگ مارچ کے لیے تیار رہیں اور چاہے جتنے دن بھی بیٹھنا پڑے اس کی بھی تیاری رکھیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب دھرنے کرانے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف سازشیں کامیاب نہ ہوئیں تو پھر کرپشن کا راگ الاپتے ہوئے عدالت کے ذریعے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر گھر بھیج دیا۔
مریم نواز نے کہا کہ قانون کی حکمرانی بات کرنے والے کیا صرف بٹ کڑاہی والے کو قانون کے دائرے میں لا سکتے ہیں؟ کیا اُن میں ہمت ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کے پاپا جونز پیزا کو بھی قانون کے دائرے میں لائیں۔
'اب مذاکرات نہیں لانگ مارچ ہو گا'
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے مذاکرات کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ "اب ڈائیلاگ کا وقت گزر چکا اب لانگ مارچ ہو گا۔ اسلام آباد ہم آ رہے ہیں۔"
اُنہوں نے کہا کہ "ہمیں فون کرنا بند کریں، ہمارے اندر دراڑیں ڈالنے کی کوششیں نہ کریں، اب ہم اسلام آباد جائیں گے اور سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیج کر دم لیں گے۔"
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم کٹھ پتلی اور اس کے سہولت کاروں کو للکار رہے ہیں تاکہ اُنہیں عوام کا حق تسلیم کرنے پر مجبور کریں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔
'عوام کے ساتھ ٹکراؤ سے گریز کریں'
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کے ساتھ ٹکراؤ سے گریز کرے اور اُن کا حقِ حکمرانی تسلیم کرے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 72 سال سے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کی وجہ سے ہمارا ملک غلام بن چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد اپنی فوج، عدلیہ اور اداروں کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ سے آزاد کرانا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں استعفوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت کا ردِعمل
اپوزیشن جماعتوں کے لاہور جلسے پر ردِعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا کہ لاہور کے سرد موسم کی طرح اپوزیشن جماعتوں کا لاہور جلسہ بھی ٹھنڈا رہا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس ناکام جلسے کے بعد اپوزیشن جماعتیں لاہور میں 15 ہزار لوگ بھی جمع نہیں کر پائیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ کئی روز سے کہا جا رہا تھا کہ ۔آر یا پار' لیکن یہ مایوس کن جلسہ ان کی بدانتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پی ڈی ایم کے جلسے سے متعلق وزیر قانون راجا بشارت کا جاری کردہ ویڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ کرونا وبا کے پیشِ نظر پی ڈی ایم کو جلسے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ حساس اداروں نے جلسے کے لیے تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا تھا اور اس سے اپوزیشن رہنماؤں کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعلی پنجاب کی مشیر برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے جلسے سے متعلق ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جلسہ گاہ نہیں، بلکہ کلاس روم ہے۔ جہاں اراکین اسمبلی کی حاضری لگائی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم 20 ستمبر کو پیپلزپارٹی کی میزبانی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں تشکیل دیا گیا تھا۔
اتحاد نے پہلے مرحلے میں ملک بھر میں جلسے کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد گوجرانوالہ، پشاور، کوئٹہ، کراچی اور ملتان میں جلسے کیے گئے۔
پی ڈی ڈیم جماعتوں کا یہ مطالبہ ہے کہ موجودہ حکومت فوری طور پر مستعفی ہو اور ملک میں شفاف انتخابات کرائے جائیں۔