بجٹ منظوری سے قبل سیلز ٹیکس کے نفاذ پر حکومت سے جواب طلب

عدالت عظمیٰ

عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ابھی تک نہ تو پارلیمان نے بجٹ منظور کیا اور نہ ہی صدر نے اس پر دستخط کیے ہیں اور اس منظوری سے قبل ہی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکشن کیسے جاری کردیا گیا۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے وفاقی بجٹ کی پارلیمان سے منظوری سے قبل ہی پٹرولیم مصنوعات پر تجویز کردہ سیلز ٹیکس لاگو کرنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

جمعہ کو عدالت عظمیٰ میں اس اضافے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ابھی تک نہ تو پارلیمان نے بجٹ منظور کیا اور نہ ہی صدر نے اس پر دستخط کیے ہیں اور اس منظوری سے قبل ہی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکشن کیسے جاری کردیا گیا۔

رواں ہفتہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی کا بجٹ پیش کیا تھا جس میں اُنھوں نے سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز دی تھی۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کے احکامات بھی دے سکتی ہے۔

اس ضمن میں محصولات کے وفاقی ادارے کو بھی عدالت نے نوٹس جاری کیا۔

اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ اُنھیں اس معاملے پر حکومت سے ہدایات لینے کی مہلت دی جائے جس پر تین رکنی بینچ نے سماعت 18 جون تک ملتوی کر دی۔

جمعرات کو پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے اعلان کے بعد ہی سے عوام میں اس پر شدید ردعمل پایا گیا اور لوگوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ اس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے غریب افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ عام انتخابات کے بعد مرکز میں بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے اقدام کے خلاف عدالت عظمیٰ یہ پہلا از خود نوٹس ہے۔

رواں ہفتے پیش کیے جانے والے بجٹ پر بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا لیکن اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اس بجٹ میں عام آدمی کے ریلیف کے لیے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا۔ لیکن حکومتی عہدیداروں کو کہنا ہے کہ ملک کی خراب اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لیے اسے چند غیر مقبول اور مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔