پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے کام کرنے والی ایک مؤقر غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' نے عام انتخابات سے قبل مختلف اداروں اور عوامل سے متعلق پائے جانے والے تاثر پر مبنی اپنی تازہ تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی غیر جانب داری سے متعلق تاثر انتہائی منفی ہے۔
منگل کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اپریل سے رواں سال مارچ کے دوران 11 مختلف حوالوں سے انتخابات سے قبل شفافیت کے بارے میں مواد کا جائزہ لے کر انھیں انتہائی غیر منصفانہ، غیر منصفانہ، منصفانہ اور اچھے تاثر کے درجوں میں تقسیم کیا گیا۔
ادارے کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ ایسی 11 چیزیں ہیں جو انتخابی عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اسی بنا پر ان کا جائزہ لیا گیا۔
"اس میں فوج کا طرزِ عمل، عدلیہ کا کیا طرز عمل ہے؟ ہمارے احتساب کے اداروں کا کیا طرز عمل ہے؟ الیکشن کمیشن کا کیا طرز عمل ہے؟ پھر ہماری انتخابی فہرستیں کیسی ہیں؟ انتخابی حلقہ بندیوں کا کام کیسا ہوا ہے؟ پرائیویٹ میڈیا اور سرکاری میڈیا کا کیا کردار رہا؟ ان ساروں چیزوں کی جو پورے ایک سال کی ڈویلپمنٹس تھیں اس کو جمع کر کے اس کا تجزیہ کیا گیا۔"
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے متعلق فوج کی غیر جانب داری کے بارے میں تاثر انتہائی خراب ہے اور اسی طرح ریاستی اداروں اور مختلف مفادات کے تناظر میں نجی ذرائع ابلاغ کی آزادی کو بھی اسی درجے میں رکھا گیا۔
سرکاری میڈیا کی غیرجانب داری کا تاثر بھی درست نہیں اور تجزیاتی رپورٹ کے مطابق یہ غیر منصفانہ کے زمرے میں آ رہا ہے اور اسی طرح احتسابی عمل، عدلیہ کا آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طرزِ عمل بھی اسی درجے میں آیا ہے۔
تاہم انتخابات کے ذمہ دار ادارے 'الیکشن کمیشن آف پاکستان' کی غیرجانب داری اور آزادانہ طرزِ عمل کے بارے میں ثاثر شفاف ہے۔
پلڈاٹ کے ڈائریکٹر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ گو کہ یہ رپورٹ تاثر کے تجزیے پر مبنی ہے لیکن یہ ایک ایسی صورتِ حال کو ظاہر کرتی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
"اس وقت یہ تجزیہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ابھی بھی وقت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے اس تاثر کو زائل کریں اور اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں غیر جانب دار ثابت کریں۔ انتخابات کے بعد بہت دیر ہو جائے گی۔ ابھی بھی دو مہینے باقی ہیں۔ اس تاثر کو زائل کیا جا سکتا ہے۔"
پاکستان میں عام انتخابات 25 جولائی کو کروانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن اپنے قائد نواز شریف سے متعلق عدالتی کارروائیوں پر انگشت نمائی کرتی آ رہی ہے جب کہ خود نواز شریف حالیہ ہفتوں میں کھل کر ریاستی اداروں پر ان کے ساتھ جانبدارانہ رویہ روا رکھے جانے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
دوسری طرف حزبِ مخالف کی دو بڑی جماعتوں کی طرف سے سابق وزیرِ اعظم کے اس موقف کو ریاستی اداروں سے متعلق بداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
فوج اور عدلیہ کی طرف سے یہ کہا جا چکا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں اور اس کی حمایت کے عزم پر قائم ہیں۔