بھارت کے متعلق خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے باوجود میاں نواز شریف نے اس اہم خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
واشنگٹن —
پاکستان کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے ملک کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کو پاکستان کی خود مختاری اور عالمی قوانین کے خلاف اور شدت پسندی کے خاتمے میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔
جمعے کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے ملک میں مخالف ردِ عمل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے امریکہ سے یہ حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے خطاب میں وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا کہ شدت پسندوں سے مذاکرات کی خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
پشاور میں گرجا گھر پر ہونے والے حالیہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ اس حملے سے شدت پسندوں کے خلاف سختی سے نبٹنے کا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو وہی لوگ نشانہ بنا رہے ہیں جو اندرونِ ملک مساجد اور فورسز پر بھی حملوں میں ملوث ہیں۔
وزیرِاعظم پاکستان نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب، سرحد اور ذات نہیں ہوتی اور دہشت گردی کو اسلام سے نہیں جوڑا جانا چاہیے جو، ان کے بقول، امن اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12 برسوں میں دہشت گردوں نے 40 ہزار پاکستانیوں کی جانیں لی ہیں جن میں آٹھ ہزار سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں پرا من مسلم برادریوں اور ان کی مقدس ہستیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اپنے خطاب میں میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ 1999ء کے اعلانِ لاہور کی روشنی میں تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کو تمام تصفیہ طلب امور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پیش کش کی ہے۔
خیال رہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان اتوار کو نیویارک میں ملاقات ہورہی ہے۔
تاہم بھارت کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے باوجود پاکستان کے وزیرِاعظم نے عالمی ادارے سے اپنے اس اہم خطاب میں مسئلہ کشمیر پر بھی بات کی جو دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی وجہ نزاع ہے۔
اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے کہا کہ عالمی برادری کشمیریوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور ان کی آواز سنی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت کچلا نہیں جاسکتا اور اقوامِ متحدہ کو جموں و کشمیر کے مسئلے پر توجہ دینی ہوگی۔
وزیرِاعظم پاکستان نے شام میں جاری تنازع کے حل کے لیے امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے اتفاقِ رائے کا بھی خیرمقدم کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان شام کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے کیوں کہ شام میں مزید جنگ قتل و غارت میں اضافہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا سخت مخالف ہے اور شام میں بھی ان کے استعمال کی مخالفت کرتا ہے۔
وزیرِاعظم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی کسی دوڑ میں شامل نہیں ہے اور کم از کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھتے ہوئے خطے میں اسلحے کی کسی دوڑ کا حصہ نہیں بنے گا۔
اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ گروہ نہیں اور افغان عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کئی عشروں تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور افغان حکومت کے ساتھ توانائی اور تجارت کے معاملات میں اشتراکِ عمل کے خواہاں ہے۔
جمعے کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے ملک میں مخالف ردِ عمل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے امریکہ سے یہ حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے خطاب میں وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا کہ شدت پسندوں سے مذاکرات کی خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
پشاور میں گرجا گھر پر ہونے والے حالیہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ اس حملے سے شدت پسندوں کے خلاف سختی سے نبٹنے کا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو وہی لوگ نشانہ بنا رہے ہیں جو اندرونِ ملک مساجد اور فورسز پر بھی حملوں میں ملوث ہیں۔
وزیرِاعظم پاکستان نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب، سرحد اور ذات نہیں ہوتی اور دہشت گردی کو اسلام سے نہیں جوڑا جانا چاہیے جو، ان کے بقول، امن اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12 برسوں میں دہشت گردوں نے 40 ہزار پاکستانیوں کی جانیں لی ہیں جن میں آٹھ ہزار سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں پرا من مسلم برادریوں اور ان کی مقدس ہستیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اپنے خطاب میں میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ 1999ء کے اعلانِ لاہور کی روشنی میں تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کو تمام تصفیہ طلب امور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پیش کش کی ہے۔
خیال رہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان اتوار کو نیویارک میں ملاقات ہورہی ہے۔
تاہم بھارت کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے باوجود پاکستان کے وزیرِاعظم نے عالمی ادارے سے اپنے اس اہم خطاب میں مسئلہ کشمیر پر بھی بات کی جو دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی وجہ نزاع ہے۔
اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے کہا کہ عالمی برادری کشمیریوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور ان کی آواز سنی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت کچلا نہیں جاسکتا اور اقوامِ متحدہ کو جموں و کشمیر کے مسئلے پر توجہ دینی ہوگی۔
وزیرِاعظم پاکستان نے شام میں جاری تنازع کے حل کے لیے امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے اتفاقِ رائے کا بھی خیرمقدم کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان شام کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے کیوں کہ شام میں مزید جنگ قتل و غارت میں اضافہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا سخت مخالف ہے اور شام میں بھی ان کے استعمال کی مخالفت کرتا ہے۔
وزیرِاعظم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی کسی دوڑ میں شامل نہیں ہے اور کم از کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھتے ہوئے خطے میں اسلحے کی کسی دوڑ کا حصہ نہیں بنے گا۔
اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ گروہ نہیں اور افغان عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کئی عشروں تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور افغان حکومت کے ساتھ توانائی اور تجارت کے معاملات میں اشتراکِ عمل کے خواہاں ہے۔