وزیرِ اعظم عمران خان روس کے دو روزہ دورے پر ماسکو میں موجود ہیں اور وہ جمعرات کو صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں گے۔
عمران خان اپنے پہلے دورہٴ روس کے دوران صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
خطے کے بدلتے حالات اور عالمی صورتِ حال میں وزیرِ اعظم عمران خان کے دور ۂ ماسکو کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ یوکرین اور روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کے دوران وزیرِِ اعظم عمران خان کے دورۂ ماسکو کا مغربی دنیا کو اچھا تاثر نہیں جائے گا۔
یوکرین میں بطور سفارت کار خدمات انجام دینے والے میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس کہتے ہیں کہ وزیر اعظم چاہ رہے ہیں کہ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کسی طرح دوبارہ بحال ہوں۔ ٹیکنالوجی، توانائی اور دفاع کے شعبوں میں انحصار صرف امریکہ و مغرب پر نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ گیس پائپ لائن، تجارت اور وسطیٰ ایشیا تک افغانستان کے ذریعے رسائی ہو سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ روس کے صدر کے یوکرین کے حوالے سے اعلان کے بعد امریکہ اور یورپ کے ممالک ماسکو پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیرِ اعظم عمران خان کے دورے کا وقت مناسب نہیں ہے۔
’وقت کے غیر مناسب انتخاب سے اس دورے کے اصل مقاصد پیچھے رہ جائیں گے‘
اطہر عباس کہتے ہیں کہ غیر مناسب وقت کے سبب اس دورے کے اصل اغراض و مقاصد پیچھے رہ جائیں گے۔ ان کے بقول یورپی ممالک اور امریکہ اس نظر سے دیکھیں گے کہ پاکستان کسی طرح روس کی حمایت یا تائید کرتا نظر آ رہا ہے یا وہ اس وقت باقی دنیا کے ساتھ نہیں کھڑا۔
وہ کہتے ہیں کہ چاہے پاکستان کا یہ ارادہ نہ ہو کہ وہ اس تنازع میں فریق بن جائے البتہ بین الاقوامی تعلقات میں تاثر بہت اہم ہوتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان روس کی تائید کرتے ہوئے نظر آئے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیر کی شب روس کے صدر پوٹن کی جانب سے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ کنٹرول خطے کو خود مختار علاقے تسلیم کرنے کے فیصلے کے اعلان کے بعد کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کے حوالے سے کافی عرصے سے دونوں کی خواہش رہی ہے کہ اس میں گرم جوشی لائی جائے اور موجوہ دورہ اسی کی کڑی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ دوطرفہ معاملات پر بات چیت کرنے کے حوالے سے ہے اور اس کا روس یوکرین تنازعے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ستون ہے کہ تمام بڑی طاقتوں سے اچھے تعلقات قائم کیے جائیں۔
اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ دنیا کو عمران خان کے دو رۂ روس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس کا حالیہ علاقائی صورتِ حال سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔
خیال رہے کہ یوکرین تنازع سے قبل دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں روس کے صدر نے پاکستان کے وزیرِ اعظم کو اس دورے پر مدعو کیا تھا۔ اس دورے کا اعلان عمران خان نے رواں ماہ اپنے دورہٗ چین کے دوران کیا تھا۔
اسلاموفوبیا اور افغانستان کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کا امکان
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس دورے کے دوران دونوں رہنما دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لیں گے اور توانائی کے منصوبوں میں تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ خطے اور بین الاقوامی مسائل پر بھی گفتگو ہوگی جن میں اسلاموفوبیا اور افغانستان کی صورتِ حال شامل ہے۔
اطہر عباس کہتے ہیں کہ یہ بہت ہی غیر دانش مندانہ اقدام ہو گا کہ اس تنازع میں پاکستان کا جھکاؤ کسی ایک فریق کی جانب ہو۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے یوکرین کے ساتھ بھی دیرینہ تعلقات اور دفاعی معاہدے ہیں۔ لہٰذا اسلام آباد کی جانب سے حالیہ تنازع سے قطع نظر یہ شفاف پیغام جانا چاہیے کہ پاکستان کا جھکاؤ کسی کی طرف نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم کسی فریق کو ناراض نہ کریں۔ اگرحالات میں کسی قسم کی تبدیلی آئے اور ایسا محسوس ہو کہ پاکستان روس کی تائید کر رہا ہے تو اس کو فوری دور کیا جائے۔
اطہر عباس کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب امریکہ اور یورپی ممالک روس پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ وہ یقیناََ یہ چاہیں گے کہ اگر کوئی ملک ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو کم از کم ان کے خلاف بھی نہ ہو۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان جب یہ کہتا ہے کہ ہم چین سے بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں اور امریکہ اور روس سے بھی اچھے مراسم رکھنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔
’اسلام آباد تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے‘
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے اور ہم نے ماضی میں ثابت کیا ہے کہ توازن رکھا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ روس کی طرح پاکستان اور یوکرین کے تعلقات بھی دوطرفہ ہیں اور ان تعلقات کو دورہ ماسکو متاثر نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ دفاع اور زراعت کے شعبے میں پاکستان یوکرین سے درینہ تعلقات رکھتا ہے اور کیف میں پاکستان کے سفیر کی یوکرینی نائب وزیرِ خارجہ سے حالیہ ملاقات اسی سلسلے میں ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ یوکرین میں پاکستان کے سفیر میجر جنرل (ر) نوئل اسرائیل کھوکھر نے پیر کو یوکرینی نائب وزیر خارجہ سے دارالحکومت کیف میں ملاقات کی تھی جس میں پاکستان کے سفیر نے یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں واضح کر چکے ہیں پاکستان کسی کیمپ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔ انہیں دورۂ روس کی دعوت یوکرین تنازع سے پہلے دی گئی تھی۔
عمران خان نے کہا تھا کہ دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ دورہ عالمی طاقتوں کے ساتھ باہمی مفادات پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا عکاس ہے۔