اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمان سے اعلان لاتعلقی کرتے ہوئے جے یو آئی (پاکستان) بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ جے یو آئی ف کے نام سے فضل الرحمان نے اپنا گروپ تشکیل دیا ہے، جب کہ ہم کبھی بھی جے یو آئی (ف) یا فضل الرحمٰن گروپ کا حصہ نہیں رہے۔
دوسری جانب حکومت نے اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے جس میں کہا ہے کہ وہ پارلیمان میں شامل افراد کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہ رہی ہے، لیکن ان کی اپنی صفوں میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ جے یو آئی کے تقسیم سے ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں شخصیات کے زیر اثر ہوتی ہیں۔
جے یو آئی کا نیا گروپ
جمعیت علما اسلام کے ناراض رہنماؤں کا اسلام آباد میں اجلاس ہوا، جس میں مولانا شجاع الملک سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی جب کہ حافظ حسین احمد ویڈیو لنک پر شریک ہوئے۔
اجلاس کے دوران حافظ حسین احمد نے کہا کہ جب مولانا فضل الرحمن کے مقابلے کے لیے مولانا محمد خان شیرانی کا نام پیش کیا تو تین دن تک اجلاس نہ ہو سکا۔ مولانا فضل الرحمن نے ارکان کو مجبور کیا کہ مولانا شیرانی اُن کے مقابلے سے دستبردار ہو جائیں۔ اور انہپں جماعت کا تا حیات امیر منتخب کیا جائے۔ جب بعض ارکان نے دستور کا حوالہ دیا تو اُن کی بات نہ سنی گئی۔
ارکان کا موقف تھا جن جماعتوں کی کرپشن کو سہارا دینے کے لیے ہم نکلے ہیں وہ بھی ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔
مولانا محمد خان شیرانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین عام انتخابات میں جے یو آئی ف کے نوٹیفیکیشن ساتھیوں کے سامنے رکھے۔ 2018 میں جے یو آئی فضل الرحمان کے نام سے الیکشن کمیشن میں درخواست دی گئی۔ ساتھیوں کو کوئی ابہام نہیں کہ جے یو آئی ف کے نام سے فضل الرحمان نے اپنا گروپ تشکیل دیا ہے۔ جب کہ ہم کبھی بھی جے یو آئی (ف) یا فضل الرحمٰن گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ ہم ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق رکن رہے اور رہیں گے۔
محمد خان شیرانی نے کہا کہ آج کے اجلاس میں تجویز دی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان فضل الرحمٰن اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، ان دونوں قسم کے نوٹی فکیشن کو منسوخ کیا جائے۔ اس بارے میں ایک نیا نوٹی فکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے نام سے جاری کیا جائے جس طرح ہمارے منشور میں موجود ہے اور الیکشن کمیشن کو پیش کیا جائے۔
مولانا شیرانی نے کہا کہ جمیعت کے اندر انتشار کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہمارے بارے میں جو بھی کہا گیا ہم اس کا جذباتی انداز میں جواب یا ردعمل نہیں دیں گے۔ ہم ان کو تنہا کریں گے۔ ان کو اکیلا کیا جائے گا۔ فضل الرحمان گروپ کسی پروگرام میں ہمیں دعوت دیں گے تو ہم شریک ہوں گے۔ ہم تمام ساتھیوں کو ترغیب دلائیں گے کہ جماعت کے اداروں سے رابطہ نہ توڑیں۔ ہمارے بارے جو کچھ بھی کہا جائے گا ہم جواب نہیں دیں گے۔ ہم اپنے پروگراموں میں انہیں بلائیں گے۔ ہم اپنے پروگرام میں منفی رویہ اختیار نہیں کریں گے۔
حکومت کی اپوزیشن کو دعوت
دوسری جانب حکومت نے اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے جس میں کہا ہے کہ وہ پارلیمان میں شامل افراد کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز پارلیمنٹ میں نہیں ہیں اس لیے حکومت ان سے بات نہیں کر سکتی۔ ہم ذمہ دار لوگوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ہم مذاکرات کریں گے لیکن بچوں سے بات نہیں کریں گے۔
اس صورت حال پر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ دونوں جانب سے مذاکرات کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن اب تک مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اس بارے میں کوئی بات سامنے نہیں آ سکی۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اگر اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو کر کیوں نہیں کر رہی۔ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ حکومت مستحکم نہ ہو سکے۔
مولانا محمد خان شیرانی کی طرف سے نئے گروپ کے قیام کے متعلق رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں شخصیات کے ماتحت ہوتی ہیں، لہذا سیاسی جماعتوں کے اندر اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ماضی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے نئے گروپ سامنے آئے۔ مسلم لیگ(ن) کو توڑنے کی بات کی گئی۔ اے این پی میں نئے گروپس کا کہا گیا لیکن یہ تمام سیاسی جماعتیں ایک دو سیاسی شخصیات کے زیر اثر ہوتی ہیں اور ان کو توڑا نہیں جا سکا۔ اس نئے گروپ کے قیام سے بھی جے یو آئی کو فرق نہیں پڑے گا اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی ہی اصل جے یو آئی ہو گی۔
اپوزیشن کا مذاکرات سے انکار
حکومت کی طرف سے مذاکرات کی دعوت کو اپوزیشن کی طرف سے مسترد کردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اب مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ اب ہم مذاکرات نہیں کریں گے، اس حکومت کو ہر حال میں جانا ہی ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) کی مریم نواز کی طرف سے بھی مذاکرات سے انکار کیا گیا ہے جس کے بعد خواجہ آصف کی گرفتاری کے باعث حکومت اپوزیشن تعلقات مزید کشیدہ ہوتے نظر آ رہے ہیں اور کل سے سینیٹ کے اجلاس میں دو طرفہ تلخی نظر آنے کا امکان ہے۔