وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ملک میں استحکام کے لیے سیاسی قائدین اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچے۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور دیگر قیادت سے لاہور میں ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ اْن کی حکومت اداروں اور پارلیمان کو مضبوط کرنے کی خواہاں ہے اور اس سلسلے میں مسلم لیگ (ق) نے گذشتہ تقریباً تین سال کے دوران پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔
چودھری شجاعت نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اْن کی جماعت چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل پر توجہ دے اور اپنے طرز حکمرانی میں بہتری لائے۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنماوٴں سے مذاکرات سے قبل وزیر اعظم گیلانی نے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے بھی ملاقات کی۔ تاہم اْنھوں نے کہا کہ یہ ایک معمول کی ملاقات تھی اور اس کا موجودہ سیاسی صورت حال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔
اْن کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے رہنماوٴں نے منگل کو اپنی جماعتوں کے اجلاس بلا رکھے ہیں جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے پارلیمان میں حکمران اتحاد سے علیحدگی کے اعلان کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے حکومت کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک کی حوصلہ شکنی کے لیے حزبِ مخالف کی بڑی سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کر رکھے ہیں۔
پیٹرولیم اور تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر احتجاج کرتے ہوئے اتوار کی شب ایم کیو ایم نے حکومت سے الگ ہو کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کردیا تھا جس نے برسراقتدار اتحاد کو قومی اسمبلی میں 25 ارکان کی حمایت سے محروم کرکے ایک اقلیتی حکومت میں تبدیل کردیا ہے۔
تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے حالیہ تنقیدی بیان پر نالاں تھی اور اس ہی کی وجہ سے جماعت نے حکمران اتحاد سے علیحدگی اختیار کی ہے۔
اِس وقت پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکمران اتحاد کے ارکان کی تعداد کم ہوکر 160 رہ گئی ہے جب کہ 342 نشستوں کے ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے اسے کم از کم 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔
ایم کیو ایم کے اعلان نے پاکستان میں سیاسی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے لیکن مبصرین کے خیال میں یہ صورت حال حکومت کے لیے فوری پریشانی کا باعث نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگربرسراقتدار اتحاد پارلیمان میں اکثریت سے محروم ہوا ہے توحزب اختلاف کی جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نازک نوعیت کے پیش نظر وزیر اعظم گیلانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے دستور میں بھی ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ پارلیمان میں اکثریت کھو دینے کے بعد وزیر اعظم مستعفی ہوجائیں۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے توقع ظاہر کی ہے کہ حکمران اتحاد سے الگ ہونے والی دونوں جماعتوں، ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام، کی شکایات جلد دور کردی جائیں گی اور وہ حزب مخالف کے بنچوں پر بیٹھنے کے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں گی۔
آئینی ماہرین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پارلیمان میں پیش کیے جانے کا فوری طور پر امکان نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی سیاسی جماعت حکمران اتحاد سے الگ ہوتی ہے تو اسے اپوزیشن کا درجہ دینے کے عمل میں وقت درکار ہوتا ہے۔ اس کے لیے پہلے تحریری طور پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں درخواستیں دی جاتی ہیں جن پر ہدایات کب جاری کی جائیں اس کا فیصلہ اسپیکر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے چیئرمین کرتے ہیں۔
حکومت سے علیحدہ ہونے والی مذہبی جماعت جے یو آئی نے قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا کے پاس اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی درخواست جمع کرا رکھی ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ایوان زیریں میں سات ارکان ہیں۔
ایم کیو ایم کے حکمران اتحاد سے علیحدگی کے اعلان نے پاکستان میں سیاسی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے لیکن مبصرین کے خیال میں یہ صورت حال حکومت کے لیے فوری پریشانی کا باعث نہیں ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگربرسراقتدار اتحاد پارلیمان میں اکثریت سے محروم ہوا ہے توحزب اختلاف کی جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نازک نوعیت کے پیش نظر وزیر اعظم گیلانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔