مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پیر کو لندن میں ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹرفاروق ستار سے اہم ملاقات کی ۔ملاقات آل پارلیمانی گروپ آف کامن ویلتھ کے چیئرمین اینڈریو اسٹیفن سن کی جانب سے برطانوی ہاوٴس آف کامن میں دیئے گئے ظہرانے پر ہوئی۔دونوں رہنماوٴں نے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا اور کچھ منٹ تک دونوں نے تنہائی میں تبادلہ خیال بھی کیا۔
شہباز شریف لندن کے پانچ روزہ دورے پر ہیں ۔انہیں نے اتوار کی شام تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات بھلاکر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے اور حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن ایلائنس تشکیل دینے پر زور دیا تھا۔ اس نظریئے کے تحت امید کی جا رہی کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین سے بھی ملاقات کریں گے۔
ادھر مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف نے سینیٹر اسحاق ڈار کو ایم کیو ایم سے رابطے بحال کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اسحاق ڈار نے فاروق ستار سے لندن جاتے وقت دبئی میں مختصر قیام کے دوران پیر کو ملاقات کی۔ سیاسی مبصرین اس ملاقات کو بھی اہم قرار دے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق گرینڈ الائنس کے قیام کیلئے مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہیں تاہم مسلم لیگ ن نے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔پی ایم ایل این کے ارکان نے کہا ہے کہ جے یو آئی کو گرینڈ الائنس کا حصہ بننے سے پہلے اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔ جس کیلئے ایم کیو ایم کو یہ ذمہ داری دی جائے گی کہ وہ جے یو آئی کو اعتماد میں لے۔
لندن ایک بار پھر پاکستانی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز
مبصرین کے مطابق آج کی سیاسی ملاقاتوں نے لندن کوایک بار پھر پاکستانی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا ہے جہاں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اورمتحدہ قومی موومنٹ کی اعلیٰ قیادت کی موجودگی اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی لندن آمد اس شہر کے موسم کومزید گرما رہی ہے ۔ ماہرین کے مطابق لندن سے آنے والی ایک بڑی خبر پیپلزپارٹی کی نیندیں اڑا سکتی ہے ۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری نثار علی خان،پاکستان پیپلزپارٹی کے سینٹر رضا ربانی، پاکستان پیپلز پارٹی (شیر پاوٴ) کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاوٴ،عوامی نیشنل پارٹی کے سنیٹر افراسیاب خٹک، مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر وسیم سجادبھی لندن میں پاکستانی سیاست کا درجہ حرارت بڑھتا محسوس کر رہے ہیں ۔ ادھرپیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر آصف علی زرداری تمام تر صورتحال کاانتہائی قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی لندن میں رہائش کے باعث متحدہ کے لئے بھی یہ شہر توجہ کا مرکز ہے ۔پھر بلوچ قوم پرست رہنما حربیار مری بھی یہیں رہائش پذیر ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک بھی ایک طویل عرصہ لندن میں جلا وطنی کی زندگی گذارچکے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں لندن کا کردار ہمیشہ ہی کلیدی رہا ہے۔ جب بھی ملک میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر پہنچا ،بڑے سیاستدانوں نے اسی ٹھنڈا موسم رکھنے والے شہر کا رخ کیا اور الجھی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی شہید چیئرپرسن کے درمیان 14 مئی دو ہزار چھ کو میثاق جمہوریت بھی اسی شہر کی میزبانی میں طے پایا تھا ۔ اسی سال دو جولائی کو پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف حکمت عملی طے کرنے کے لئے بھی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے لندن ہی کا رخ کیا تھا ۔
ایک ہفتہ قبل ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعدگرینڈ اپوزیشن الائنس سے متعلق مسلم لیگ ن کی خاموشی کے باعث شکوک و شبہات جنم لے رہے تھے تاہم مسلم لیگ ن نے چپ کا روزہ لندن میں شہباز شریف کے بیان سے اتوار کو اس وقت توڑا جب انہوں نے ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو گرینڈ اپوزیشن الائنس میں شامل ہونے کی دعوت دے دی ۔ شہباز شریف کے اس بیان کے بعد تمام نظریں لندن پر مرکوز ہو گئیں ہیں اور پاکستانی سیاست میں ایک بار پھراتھل پتھل مچی ہوئی ہے ۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی 'قربانی'
پیر کو شہباز شریف اور ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار کی لندن میں ملاقات نے حکمراں اتحاد کی بے چینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ماہرین کے مطابق اگر مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے ماضی کو بھلا کر حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے خلاف جے یو آئی (ف) کے ساتھ مل کر صف بندی کر لی تو حکومت کا تختہ لرزجائے گا۔تاہم اس کے لئے مسلم لیگ ن یا جے یو آئی دونوں میں سے کسی ایک جماعت کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی قربانی دینا پڑے گی ۔
مبصرین کے مطابق ایک جانب تو لندن میں سیاسی شخصیات کی موجودگی ملک کے سیاسی نقشے پر کوئی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے تو دوسری جانب اتوار کو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کی جانب سے حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی منظوری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی رابطہ مہم
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف جس نے پہلے ہی” ملک بچاؤ ، حکومت ہٹاؤ “ تحریک چلا رکھی ہے ، اس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ مہم شروع کرنے جا رہی ہے ۔ اگر چہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی نمائندگی ایوانوں میں اس وقت موجود نہیں تاہم ایوانوں کے ساتھ ساتھ عوام کاسڑکوں پر احتجاج بھی کوئی انہونی کرسکتا ہے ۔