ایم کیو ایم کا حکومتی بنچوں پر واپسی کا اعلان

ایم کیو ایم کے وفد کی وزیراعظم گیلانی سے ملاقات (فائل فوٹو)

نائن زیرو آمد سے قبل وزیراعظم گیلانی نے صدر آصف علی زرداری اور سندھ کے گورنر عشرت العباد سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں ۔ ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت پارلیمان میں عددی اکثریت کھو بیٹھی ہے اور وزیراعظم اپنی حکومت بچانے کے لیے ناراض اتحادی جماعت سے رابطے کر رہے ہیں۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے مخلوط حکومت کو بچانے کی کوششیں اس وقت رنگ لے آئیں جب متحدہ قومی موومنٹ نے سرکاری نشستوں پر واپس آنے کا اعلان کردیا تاہم ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ وہ وفاقی کابینہ میں شمولیت سے فی الحال قاصر ہے۔

یہ اعلان جمعہ کو وزیراعظم گیلانی کی متحدہ کے کراچی میں مرکز نائن زیرو آمد ،رابطہ کمیٹی کے ارکان اور جماعت کے قائد الطاف حسین سے فون پر بات کے بعد سامنے آیا۔

ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون نے اس موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے ملک کی نازک صورتحال، جمہوریت کے فروغ اور عوام کی فلاح وبہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت میں واپس آنے کا فیصلہ ہے اور انھیں امید ہے کہ حکومت ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی عملی اقدامات کرے گی۔

وزیراعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ حکومت ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو سندھ کابینہ کے تمام فیصلوں میں ساتھ لے کر چلیں گے۔ انھوں نے کہا کہ مشاورت کی پالیسی پر چلتے ہوئے حکومت نے پٹرولیم کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لینے کے فیصلے پر امریکا نے اعتراض کیا ہے اور وزیرخارجہ ہلری کلنٹن کا کہنا ہے ’’یہ ایک غلطی ہے‘‘ جس سے پاکستان کو ایک مضبوط اقتصادی بنیاد فراہم کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی پیش رفت متاثر ہوگی۔

ایک روز قبل وزیراعظم گیلانی نے تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا تھا ۔ ایم کیو ایم نے یکم جنوری سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نو فیصد تک اضافے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تاہم متحدہ قومی موومنٹ سندھ حکومت میں بدستور پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہے۔

نائن زیرو آمد سے قبل وزیراعظم گیلانی نے صدر آصف علی زرداری اور سندھ کے گورنر عشرت العباد سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں ۔ ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت پارلیمان میں عددی اکثریت کھو بیٹھی ہے اور وزیراعظم اپنی حکومت بچانے کے لیے ناراض اتحادی جماعت سے رابطے کر رہے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے حکمران اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے سے قبل مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام نے اپنے ایک وزیر کی برطرفی کے فیصلے کے خلاف حکمران اتحاد کو خیرآباد کہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فضل الرحمن نے صدر زرداری سے یہ مطالبہ بھی کر رکھا ہے کہ مصالحتی پالیسی کو سبوتاژ کرنے کی پاداش میں وہ وزیراعظم گیلانی کواُن کے عہدے سے ہٹا دیں۔

وزیراعظم نے اپنی حکومت کو موجود ہ سیاسی مشکلات سے نکالنے کے لیے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے بھی ملاقاتیں کی تھیں ۔

رواں ہفتے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد جماعت کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم کو آئندہ 72 گھنٹوں میں ”ہاں یا ناں“ میں جواب دینا ہو گا کہ آیا اُن کی حکومت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پیش کیے گئے ایجنڈے کے تحت انتظامی معاملات میں بہتر بنانے پر متفق ہے یا نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایجنڈے میں پٹرولیم کی مصنوعات میں غیر معمولی اضافے کے فیصلے کی واپسی، سرکاری اداروں میں مبینہ بدعنوانی کے انسداد کے لیے موثر اقدامات اور پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبات سر فہرست ہیں۔