پاکستان میں ایک جانب جہاں میمو گیٹ اسکینڈ ل نے سیاسی اور عدالتی ایوانوں میں ہلچل مچائی ہوئی ہے تو دوسری جانب صدر آصف علی زرداری کی وطن واپسی میں تاخیر بھی گھر، دفتر اور قہوہ خانوں میں گرما گرم بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ تیسری جانب ایک شہر کے بعد دوسرے شہر میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے اور ان میں روز بہ روز بڑھتی ہوئی عوامی شرکت اور نت نئے رہنماوٴں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے تیز تر رجحان نے عام آدمی کو نئی سوچوں اور کچھ کچھ اندیکھے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے جب میمو گیٹ اسکینڈ ل پر عام آدمی کی رائے اور سوچ جاننے کے لئے مشاہدہ کرنا شروع کیا تو بہت سی سنجیدہ باتوں کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ دلچسپ پہلو بھی سامنے آئے، مثلاً ناگن چورنگی کے ایک چھپرا قہوہ خانے میں صبح کے وقت سردی کی چائے کا مزہ اٹھاتے مزدوں کے درمیان یہ بحث جاری تھی کہ منصور اعجاز آخر ہے کون ؟ ’اخبار سمجھنے کی حد تک پڑھے لکھے ایک شخص کا کہنا تھا ” منصور اعجاز’ امریکہ کا آدمی‘ ہے ، امریکہ زرداری سے ناراض ہے اس لئے منصور اعجاز سے مل کر حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔“
یہ بات سننا تھی کہ ایک اوراپنے تئیں ’جہاندیدہ‘ شخص نے کہا ”دیکھنا ایک دن منصور ، زرداری کی جگہ بیٹھا ہوگا۔ جو آدمی ایک خط لکھ کر حکومت کو ہلادے، صدر کو دبئی میں ’سیاسی پناہ‘ لینے پر مجبور کردے، فوج کے جرنیلوں کو حرکت میں لے آئے ۔۔۔اور خود ٹی وی کے ہر پروگرام میں بیٹھا ہو وہ کتنا پاور فل ہوگا“
اس بحث میں وہیں بیٹھے ایک تیسرے شخص نے بھی اپنا’ نظریہ ‘پیش کرنا بہتر سمجھا چنانچہ کہنے لگا”مجھے تو لگتا ہے کہ منصور اعجاز بھی تحریک انصاف میں شامل ہوجائے گا ۔ “
مذکورہ تینوں افراد کی باتیں پاکستان کے عام آدمی کے ”مائنڈ سیٹ“ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب سے میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا ہے ملک کا ہر طبقہ اس پر اپنے انداز سے سوچتا ہے ۔عام مشاہدہ یہ ہے کہ خوشحال طبقہ میموگیٹ اسکینڈ ل کو ’انجوائے ‘کررہا ہے۔
ڈیفنس فیز ٹو میں رہائش پذیر ایک تاجر آئی ایچ عباسی کا کہنا ہے ” پاکستان میں ہر مہینے ،دو مہینے بعد ایک ایسا ایشو جان بوجھ کر اٹھایا جاتا ہے جس کے ہر طرف چرچے ہوتے ہیں۔ کچھ دنوں تک اس پر شور شرابہ ہوتا ہے، کچھ سیاسی پارٹیاں اس میں مذہبی پہلو نکال لیتی ہیں تو کچھ سیاسی جس پر سڑکوں پر ان کے کارکن آتے ، ماردھاڑ کرتے اور جلاوٴ گھیراوٴ کرتے ہیں پھر سب کچھ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ لیکن ایک دو ہفتے بعد کوئی تیسرا ایشو اٹھ جاتا ہے۔“
اپنی بات کے جواب میں دلیل پیش کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا ہے ” اسی سال پہلے سلمان تاثیر قتل پر مذہبی وسیاسی جماعتوں نے شورشرابہ کیا ، پھر ریمنڈ ڈیوس کیس کو لے کر لوگ سڑکوں پر نکلے، اس سے بچے تو سلالہ چیک پوسٹ کا معاملہ کھڑا ہو گیا اور ابھی یہ معاملہ طے بھی نہ ہوا تھا کہ اب میمو گیٹ اسکینڈل نے پچھلے سارے معاملات کو ایک طرف کردیا ہے۔اور اب صرف ہر میمو ہی میمو ہے۔“
ایک سوال کے جواب میں آئی ایچ عباسی کا کہنا تھا ”پوش علاقے میں رہنے والے لوگ بھی دوسرے لوگوں کی طرح کے ہی انسان ہیں۔ ان معاملات سے انہیں بھی فکر لاحق ہوتی ہے، مگر کب تک؟؟ مجھے معلوم ہے کہ زندگی صرف ایک بار ملی ہے لہذاوہ اور ان کے جیسے بہت سے لوگ سب کچھ بھلاکر زندگی کے مزے اٹھا رہے ہیں۔ روز کی طرح اخبار پڑھتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں ، سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا دیکھتے ، ان سے مزہ اٹھاتے ہیں اور آخر میں یہ سوچ کر سو جاتے ہیں۔۔۔کہ اللہ مالک ہے۔“
ملکی حالات پر متوسط طبقہ کس انداز سے سوچتا ہے ، اس کا اندازہ نارتھ ناظم آباد اور گلشن اقبال میں رہنے والے دو دوستوں کی اس گفتگو سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ” عام آدمی کے مسائل سننے والا کوئی نہیں ہے۔ پیٹرول مہنگا اور سی این جی ندارد ہے۔ حکومت آئے دن بجلی مہنگی کرتی رہتی ہے ۔ ۔۔امریکی امداد کی صورت میں لاکھوں اورکروڑوں ڈالرز لینے کے لئے سارا کھیل کھیلا جاتا ہے ۔۔۔ہر حکومت یہ کھیل کھیلتی رہی ہے ۔۔پہلے بھی ایسا ہوتا تھا ۔۔آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔۔یہ مایوسی نہیں حقیقت ہے۔“
عام آدمی اور نچلے طبقے کی بات کریں تو اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک ادھیڑ عمر شخص فیروز کا کہنا ہے کہ وہ نیوکراچی میں رہتا اور لانڈھی انڈسٹریل ایریا کی ایک فیکٹری میں معمولی تنخواہ پر کام کرتا ہے ۔ صبح سات ،ساڑھے سات بجے گھر سے نکلتا ہے ۔ اس وقت اس جیسے سینکڑوں افراد اپنی اپنی ملازمتوں پر نکلتے ہیں اس لئے بسوں اور ویگنوں میں جگہ نہیں ملتی ، وہ بھری ہوئی بس کی چھت پر اور کبھی دروازے پر لٹک کر سفر کرتا ہے۔
یہی حال شام کو ہوتا ہے۔ اسے زندگی کی صرف اتنی ہی ”عیاشی“ حاصل ہے کہ ”مین پوری “یا ”گٹکھا“کھالیتا ہے ۔ گھر پہنچے تو لائٹ نہیں ہوتی، رات کو مچھر اور تنگ دستی پیچھا نہیں چھوڑتی ایسے میں ۔۔۔میمو اسکینڈل کیا ہوتا ہے؟؟؟۔۔صدر کہاں گئے، کہاں نہیں گئے، کب آئیں گے ، سیاست ، حکومت، نعرے، پارٹیاں ۔۔۔کسی کا ہوش نہیں۔ ۔۔ہاں وہ حکومت کا صرف اتنا خیال رکھتا ہے کہ ہر پانچ سال بعد کسی نہ کسی امیدوار کو ووٹ دے آتا ہے مگر ۔۔۔اسے یقین نہیں کہ اس کا ایک ووٹ ۔۔۔صرف ایک ووٹ کس اہمیت کا حامل ہے۔۔۔!!