پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے نکالنے کا اعلان

پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے نکالنے کا اعلان

نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ نہ سرکاری اداروں سے بدعنوانی کو ختم کرنے اور نہ ہی عوام کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے بلکہ غیر ضروری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرضے لینے کا سلسلہ جاری رکھا گیا جس کی قیمت عام آدمی کو چکانی پڑ رہی ہے اس لیے موجودہ حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک ساتھ نہیں چال سکتے اور ”آج سے دونوں کی راہیں جدا ہیں“۔

مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی کابینہ کو آئندہ ایک یا دو روز میں تحلیل کرکے نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی۔

جمعہ کو اسلام آباد میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے ایک اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اقتصادی اور انتظامی اصلاحات کے لیے اُن کی جماعت نے مرکز میں پیپلز پارٹی کی قیاد ت میں مخلوط حکومت کو جو دس نکاتی ایجنڈا دیا تھا مقررہ مدت میں اُس پر ”اطمینان بخش“ پیش رفت نہ ہونے کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کو ختم کرنے فیصلہ کیا گیا ہے ۔

نواز شریف نے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ صدر آصف علی زرداری پچھلے تین سالوں کے دوران اُن سے کیے گئے وعدوں اور معاہدوں سے انحراف کرتے آئے ہیں مگر مرکزی حکومت کے سامنے دس نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے پیش کر کے مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کو ایک اور موقع دیا جس پر بقول اپوزیشن رہنما کے اگر 30 فیصد بھی سنجیدگی سے عملدرآمد ہو جاتا تو وہ دیگر معاملات پر سمجھوتا کرنے کو تیار تھے۔

پنجاب اسمبلی

انھوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ نہ سرکاری اداروں سے بدعنوانی کو ختم کرنے اور نہ ہی عوام کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے بلکہ غیر ضروری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرضے لینے کا سلسلہ جاری رکھا گیا جس کی قیمت عام آدمی کو چکانی پڑ رہی ہے اس لیے موجودہ حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک ساتھ نہیں چال سکتے اور ”آج سے دونوں کی راہیں جدا ہیں“۔

نواز شریف نے اپوزیشن مسلم لیگ ق کے ’یونیفیکیشن بلاک‘ کو صوبائی حکومت میں شامل کرنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کے بعض ”بھٹکے ہوئے لوگ اگر واپس آنا چاہتے ہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جائے گا “۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اس دھڑے کو بنانے میں مسلم لیگ (ن) کا ہاتھ نہیں ہے کیونکہ اُن کی جماعت تو شروع دن سے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کی پالیسی پر کاربند تھی۔

پاکستان کی حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے جمعہ کو جس فیصلے کا اعلان کیا ہے اُس کا فوری طور پراثر پیپلز پارٹی کی قیادت میں مرکز میں قائم مخلوط حکومت پر نہیں ہوگا کیونکہ مرکز میں نواز شریف کی پارٹی اپوزیشن بنچوں پر ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ہونے والی پیش رفت ملک میں آنے والے دنوں میں ایک جارحانہ سیاسی ماحول کا پیش خیمہ ہے کیونکہ پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی جبکہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) اب ایسی ہی پالیسی اپنائے گی جس سے مجموعی سیاسی ماحول تلخ ہوگا۔

وسط مدتی انتخابات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ایسے انتخابات نہ تو غیر قانونی اور نا ہی غیر آئینی ہیں لیکن انھوں نے اس پر مزید خیال آرائی سے گریز کیا۔

سینیٹررضا ربانی

حزب اختلاف کی جماعت کی قیادت کی طرف اتحاد توڑنے کے اعلان اور 10نکاتی ایجنڈے پر 30 فیصد بھی عمل درآمد نہ ہونے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیر رضا ربانی نے کہا کہ اُنھیں نواز شریف کے بیانات پر افسوس ہوا ہے کیونکہ 45 دن کی قلیل مدت میں کئی اہم اُمور پر” مثالی“پیش رفت ہوئی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حز ب اختلاف کی جماعت کے اعلانات1990ء کی دہائی میں کی جانے والی انتقامی سیاست کو دہرانے کی کوشش ہے جس کا پاکستان موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن رضا ربانی نے کہا کہ اُنھیں یقین ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے فیصلے سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پید ا نہیں ہوگا اور انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔’’پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک موثر حزب اختلاف کا کردار ادا کرے گی اور صوبائی حکومت کا احتساب کیا جائے گا‘‘۔