ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے انکشافات نے پاکستانی سیاست میں جو طوفان اٹھایا ہے وہ جلد تھمتا نظر نہیں آتا۔ تاہم اس منظر نامے کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر مرزا نے جتنی شدو مد سے یہ الزامات عائد کیے، الزامات کا نشانہ بننے والے والوں کی جانب سے اتنا ہی کمزور ردِ عمل ظاہر کیا گیا۔
سندھ کے سابق وزیرِ داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیرِداخلہ رحمن ملک کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں "پیدائشی جھوٹا" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کو کوئی نقصان ہوا تو وہ رحمن ملک سے ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ "رحمن ملک ٹارگٹ کلرز کا ساتھی اور قاتلوں سے ملا ہوا ہے" جس کے تمام ثبوت بقول ڈاکٹر مرزا کے ان کے پاس موجود ہیں۔
ذوالفقار مرزا کے ایم کیو ایم پر الزامات
تاہم ڈاکٹر مرزا کی دو گھنٹے طویل پریس کانفرنس میں اہم ترین انکشافات حکومت کی سابق اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے لندن میں مقیم سربراہ الطاف حسین کے متعلق تھے جنہیں انہوں نے ملک توڑنے کی سازش میں شریک اور قاتل قرار دیا۔
ڈاکٹر مرزا نے حلفاً کہا کہ متحدہ کے قائد نے انہیں بتایا تھاکہ امریکہ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکا ہے اور وہ اور ان کی جماعت اس فیصلے میں امریکہ کے ساتھ ہیں لہذا وہ کراچی میں پٹھانوں کو قتل کرنا بند نہیں کریں گے۔ انہوں نے کراچی کے نوجوان صحافی ولی خان بابر کے قتل کا الزام بھی براہِ راست متحدہ پر عائد کیا اور قاتلوں کے نام بھی بتائے جو ان کے بقول متحدہ کے کارکن ہیں اور پولیس کی حراست میں ہیں۔
ڈاکٹر مرزا نے ایم کیو ایم کودہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورتِ حال، شہر میں کاروباری افراد سے بھتہ وصولی اور ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اپنے تمام الزامات کے حق میں دستاویزی ثبوت موجود ہیں جو وہ عدالت کے طلب کرنے پر اس کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ کے شہری علاقوں میں اثر و رسوخ کی حامل سیاسی جماعت ہے جس کے پاس قومی اسمبلی کی 25، سینیٹ کی 6 اور سندھ کی صوبائی اسمبلی کی 51 نشستیں ہیں۔ متوسط طبقہ کی نمائندگی کی دعویدار یہ جماعت 1988ء سے کسی نہ کسی صورت میں حکومتی اتحادوں کا حصہ چلی آرہی ہے تاہم 1992ء اور 1995ء میں اس جماعت کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت فوجی اور پولیس آپریشن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
متحدہ کا 'بیانیہ' ردِ عمل
ڈاکٹر مرزا کے ان سنگین الزامات پر ایم کیو ایم نے حیرت انگیز طور پر اپنے روایتی ردِ عمل کا مظاہرہ کرنے سے گریز کیا۔ ماضی کے برعکس اس بار نہ تو ایم کیو ایم کے کسی رہنما نے ٹی وی پر آکر اپنے "غم وغصے" کا اظہار کیا اور نہ ہی پارٹی رہنمائوں کی جانب سے کسی پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے سخت ردِ عمل ظاہر کیا گیا۔
اس کے برعکس ڈاکٹر مرزا کی پریس کانفرنس کے کئی گھنٹوں بعد رابطہ کمیٹی کی جانب سے اتوار کی شب ایک بیان جاری کیا گیا جس میں ڈاکٹر مرزا کے عائد کردہ کسی الزام کا واضح جواب دینے کے بجائے ایم کیو ایم نے ان پر جوابی الزامات عائد کیے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے عائد کردہ الزامات شر انگیز اور بے ہودہ ہیں اور انہوں نے ان کے ذریعے سندھ میں نفرت، تشدد اور فساد کی آگ بڑھکانے کی کوشش کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کو ماضی میں بھی ملک دشمن ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جو بعد میں ڈرامہ ثابت ہوئیں۔
بیان میں ماضی میں پیش آنے والے کئی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے ان کی وضاحت طلب کی گئی ہے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی کی اعلیٰ قیادت سے کہا گیا ہے کہ وہ ذوالفقار مرزا کے الزامات کا فوری نوٹس لے کر اس پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔
تاہم یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے اس بیان کے اجراء سے قبل ہی وفاقی وزیرِاطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ایوانِ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے اس سے اعلانِ لاتعلقی کرچکے تھے۔
ماضی کے برعکس نرم رویہ
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ایم کیو ایم کے درمیان اس طرز کی محاذ آرائی گزشتہ ڈیڑھ برسوں سے جاری ہے۔ تاہم اس سے قبل ایم کیو ایم ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی تنقید کے جواب میں ہمیشہ سخت ترین ردِ عمل کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ ماضی میں ڈاکٹر مرزا کے اس سے کہیں کم سنگین الزامات کے جواب میں ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے علیحدگی اور یوم احتجاج منانے جیسے آپشنز کا استعمال کرتی آئی ہے جسے سیاسی تجزیہ کار انتہائی نوعیت کے اقدامات قرار دیتے رہے ہیں۔
گزشتہ برس دسمبر کے وسط میں صوبائی وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہر میں گرفتار کیے گئے بیشتر دہشت گردوں کا تعلق متحدہ سے ہے۔
ڈاکٹر مرزا کے اس الزام پر ایم کیو ایم نے فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی تھی جس کے بعد 2 جنوری کو ایم کیو ایم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی اس دھمکی پر عمل درآمد کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے ایم کیو ایم کے خلاف مسلسل بیان بازی جاری رکھنے کے بعد رواں برس جون میں انہیں رخصت پر بھیج دیا گیا تھا اور صوبائی وزارتِ داخلہ کا انتظام وزیرِاعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سنبھال لیا تھا۔ مبصرین نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے اس اقدام کو ایم کیو ایم کی ایماء پر اور اپنی اتحادی جماعت کو خوش کرنے کی ایک کوشش قرار دیا تھا۔
گزشتہ ماہ جولائی میں ڈاکٹر مرزا کی جانب سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر شدید تنقید اور تقسیم کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے آنےو الوں کے بارے میں متنازعہ بیان پر بھی متحدہ نے شدید ردِ عمل اور احتجاج کیا تھا جس کے دوران کراچی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں ڈیڑھ درجن سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی تنظیمی ساخت میں پارٹی قائد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور تنظیم کی جانب سے الطاف حسین کے خلاف ہونے والے تنقید پر ہمیشہ 'زیرو ٹالیرنس' کی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور اس طرزِ عمل کو متحدہ کی غیر اعلانیہ سیاسی روایت کا درجہ حاصل ہے۔
تاہم "حکومت کے بھیدی" قرار دیے جانے والے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے ایم کیو ایم اور اس کی قیادت پر عائد کردہ گزشتہ ایک دہائی کے سنگین ترین الزامات پر پارٹی کی خاموشی اور نیم دلانہ ردِ عمل سیاسی اور عوامی حلقوں میں چہ میگوئیوں کا باعث بن رہا۔
تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اتنے سنگین الزامات کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی سیاسی حیثیت اور ساکھ کو خاصا دھچکا پہنچے گا اور اس سے پارٹی کی اپنے گڑھ یعنی سندھ کے شہری علاقوں سے نکل کر ملک کے دیگر علاقوں میں نفوذ کی کوششیں بھی متاثر ہوں گی۔
تجزیہ کاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ڈاکٹر مرزا کے الزامات کے جواب میں یا تو متحدہ کو کھل کر اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دینا چاہیے تھا اور خود پر عائد کردہ الزامات کی حقیقت واضح کرنی چاہیے تھی یا پھر پارٹی کی جانب سے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے کم از کم عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ تو کیا جانا چاہیے تھا۔
لیکن حیرت انگیز طور پر ایم کیو ایم نے ڈاکٹر مرزا سے وہ ثبوت تک منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ نہیں کیا جن کی بنیاد پر انہوں نے پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف اتنے سخت الزامات عائد کیے ہیں۔
مبصرین کے بقول ایم کیو ایم کی جانب سے اس حوالے سے کوئی واضح اور سخت موقف نہ اپنانے کے بعد امکان ہے کہ الزامات کا یہ سلسلہ دراز ہوسکتا ہے اور اس حوالے سے مزید انکشافات بھی سامنے آسکتے ہیں۔